نظم و ضبط کے بغیر انسان اورحیوان برابر ہیں،انسان کو اشرف المخلوقات اسی بنا پر کہا جاتا ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے دیئے گئے احکامات کوپیش نظر رکھ کر پورے نظم و ضبط کے ساتھ زندگی گزارتا ہے ۔ فرد سے لے کر اقوام تک کامیابی کا دارومدار نظم و ضبط میں ہی ہے ۔افراد میں کئی لوگ ایک ڈسپلن میں زندگی گزارتے ہیں لیکن پاکستان کی سیاسی جماعتوں میں یہ ڈسپلن تلاش کرنے کو بھی نہیں ملتا سوائے جماعت اسلامی کے ۔جمہوریت میں جماعت اسلامی کی تاریخ بڑی درخشاں ہے مگر اس کی امارت کا ایک دلچسپ پہلو بھی ہے ۔جماعت اسلامی پاکستان میں اب تک پانچ امراء منصب امارت سنبھال چکے ہیں، سید ابوالاعلی مودودی، میاں طفیل محمد، قاضی حسین احمد، سید منور حسن اور سراج الحق ۔اسی طرح جماعت اسلامی ہند میں بھی اب تک پانچ امراء منصب امارت سنبھال چکے ہیں، ابواللیث ندوی، محمد یوسف، سراج الحسن، عبدالحق انصاری، اور جلال الدین عمری ۔اس میں دلچسپ بات یہ ہے کہ کسی امیر کی وفات امارت کی حالت میں نہیں ہوئی،یعنی بانی جماعت اسلامی سے لیکر کسی امیر جماعت نے اس عہدے سے تاحیات چمٹے رہنے کی کوشش نہیں کی، بلکہ بے نیازی کا کردار اپنایا۔جماعت اسلامی کے بانی سے لیکرپاک و ہند کے کسی بھی امیر جماعت کی اولاد کو وراثت کے طور پر یہ منصب نہیں ملا۔امارت سے سبکدوشی کے بعد کسی امیر کے خلاف بدعنوانی کا الزام نہیں لگا۔ جبکہ کسی بھی امیر نے اس منصب کو ذات کے لیے استعمال نہیں کیا ۔نہ ہی اس منصب پر فائز ہوتے ہوئے کوئی ذاتی ادارہ بنایا ۔ ڈاکٹر حافظ ساجد اقبال شیخ نے ’’صبح منور‘‘ کے نام سے سید منور حسن کی سوانح حیات میں دو واقعات لکھے ہیں۔’’ سید منور حسن جب امیر جماعت تھے تب ان کی بیٹی کی شادی ہوئی توکئی مہمان مہنگے تحائف دے کر گئے۔ مگر سید زادے نے اپنی بیٹی کو کہا : یہ تحفے آپ کو نہیں، جماعت کے امیر کو ملے ہیں اورتمام مالیت کی اشیاء جماعت کے بیت المال میں جمع کروا دیں۔ اسی طرح اپنے ایک تنظیمی دورے کے بعد جب سیدمنور حسن برطانیہ سے پاکستان تشریف لے آئے تو وہاں برطانیہ میں آپ کو گھڑیوں، پرفیومز، کپڑوں سمیت کافی بیش قیمت تحائف آپ سے عقیدت رکھنے والوں کی طرف سے پیش کیے گئے تھے، لیکن وطن واپسی پر آپ نے وہ سب تحائف جماعت کے بیت المال انچارج کو پیش کرتے ہوئے کہا کہ یہ سب مجھے ذاتی حیثیت میں نہیں بلکہ جماعت اسلامی کے امیر کی حیثیت سے ملے ہیں، اس لئے یہ سب جماعت کے ہیں۔‘‘ جماعت اسلامی میں امیر کے الیکشن کا نظام بھی بڑا سخت ہے ۔ مجلس شوری کا نامزد کردہ انتخابی کمیشن پانچ سال پورے ہونے سے تین ماہ قبل کام شروع کردیتا ہے۔جماعت کی مجلس شوریٰ امارت کے لیے تین اور کبھی اس سے زیادہ بھی ناموں کا اعلان کرتی ہے ۔پارٹی کے دستور کے مطابق ملک بھر سے 46 ہزار اراکین جماعت خفیہ بیلٹ پیپر کے ذریعے اپنے پسندیدہ رہنما کے حق میں رائے دے کر بزریعہ پوسٹ انتخابی کمیشن کو بھجوا تے ہیں۔یاد رہے کہ انتخاب سے چھ ماہ پہلے بننے والا رکن ہی اپنا حق رائے دہی استعمال کرتا ہے۔جماعت اسلامی میں سب سے بااختیار مجلس شوریٰ ہوتی ہے، جس کے اراکین کی تعداد 100 ہے، جس میں 25 خواتین اراکین بھی شامل ہوتی ہیں۔یہ شوری دستور جماعت اسلامی کے مطابق ملک بھر کو تقسیم کیے گئے مختلف شہروں پر مشتمل حلقوں سے ممبران کی رائے سے منتخب اراکین سے بنتی ہے۔مجلس شوری میں کئی سینئر اراکین کو امیر بنانے سے متعلق رائے لی جاتی ہے۔ جن تین سینئر اراکین کو سب سے زیادہ حمایت حاصل ہوتی ہے ،ان کے نام حروف تہجی کے لحاظ سے بیلٹ پیپر پر چھپوا دیئے جاتے ہیں۔لیکن محترم لیاقت بلوچ صاحب کا نام گزشتہ کئی برسوں سے ہی شامل ہوتاہے ۔اس کی کوئی خاص وجہ ابھی تک معلوم نہیں ہو سکی ۔سب سے اہم دلچسپ بات یہ ہے کہ کسی بھی رہنما کو نہ خود امیر بننے کی خواہش کا اظہار کرنے کی اجازت ہے نہ ہی وہ اپنی تشہیر کر سکتا ہے۔ موجودہ امیر حافظ نعیم الرحمن ایک سلجھے ہوئے باصلاحیت شخص ہیں۔اصول پسندی ،وضعداری ،شرافت اورسچائی ان کا طرہ امتیاز ہے۔ نسلوں اور کئی پشتوں سے ان کا خاندان علم وفضل،دین و دیانت ،خدمت دین ،مجاہدانہ سرفروشی ،عزیمت اور بلند ہمتی سے مزین ہے۔ انھوںنے بحثیت امیر کراچی جماعت اسلامی کو زندہ کیا ہے ۔میئر کا الیکشن لڑنے کے دوران ان کی صلاحیتیں کھل کر سامنے آئیں ۔کراچی کی سطح پر انھوں نے جماعت اسلامی کو کھویا ہوا مقام دلوانے کی کوشش کی ہے ۔ حافظ صاحب بلاشبہ متحرک ، جوان اور تعلیم یافتہ لیڈر ہیں وہ جماعتی سیاست میں اگرچہ ‘‘ جس میں نا ہو انقلاب موت ہے وہ زندگی’’ والی تھوڑی بہت روح پھونک چکے ہیں تاہم انہیں بہت محتاط قدم اٹھانے ہوں گے۔ انہیں حسب روایت سب سے پہلے تو جماعت کے اندر ہی زبردست مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا ۔اس کی وجہ جماعت اسلامی کی طاقتور مجلس شوری ہے ۔حافظ نعیم جماعت اسلامی کو دوبارہ سے میاں محمد طفیل اور قاضی حسین احمد کے دور کی جماعت بنانے کی صلاحیت رکھتے ہیں بشرطیکہ مجلس شوری انھیں کھل کر کھیلنے کا موقع فراہم کرے ۔مجلس میں بھی تازہ دم نوجوان شامل کرنے کی ضرورت ہے ۔حافظ نعیم الرحمن کوتازہ دم نوجوانوں کو ذمہ داریا ں سونپنا ہوں گی ۔ایسے نوجوان جو قومی معاملات ،فرض شناسی اور دینی کاموں میں دلچسپی رکھتے ہوں ۔ انہیں ایک متوازن ٹیم بناکر جماعت کی کھوئی ہوساکھ کو بحال کرنا ہو گا ۔جماعت اسلامی کا ووٹ بنک اس کی پالیسیوں سے مایوس ہو کر کہیں اور منتقل ہو چکا ہے ۔اسے واپس حافظ نعیم کے لیے سب سے بڑا چیلنج ہو گا ۔
QOSHE - جماعت اسلامی کی جمہوریت - امتیاز احمد تارڑ
menu_open
Columnists Actual . Favourites . Archive
We use cookies to provide some features and experiences in QOSHE

More information  .  Close
Aa Aa Aa
- A +

جماعت اسلامی کی جمہوریت

10 0
07.04.2024




نظم و ضبط کے بغیر انسان اورحیوان برابر ہیں،انسان کو اشرف المخلوقات اسی بنا پر کہا جاتا ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے دیئے گئے احکامات کوپیش نظر رکھ کر پورے نظم و ضبط کے ساتھ زندگی گزارتا ہے ۔ فرد سے لے کر اقوام تک کامیابی کا دارومدار نظم و ضبط میں ہی ہے ۔افراد میں کئی لوگ ایک ڈسپلن میں زندگی گزارتے ہیں لیکن پاکستان کی سیاسی جماعتوں میں یہ ڈسپلن تلاش کرنے کو بھی نہیں ملتا سوائے جماعت اسلامی کے ۔جمہوریت میں جماعت اسلامی کی تاریخ بڑی درخشاں ہے مگر اس کی امارت کا ایک دلچسپ پہلو بھی ہے ۔جماعت اسلامی پاکستان میں اب تک پانچ امراء منصب امارت سنبھال چکے ہیں، سید ابوالاعلی مودودی، میاں طفیل محمد، قاضی حسین احمد، سید منور حسن اور سراج الحق ۔اسی طرح جماعت اسلامی ہند میں بھی اب تک پانچ امراء منصب امارت سنبھال چکے ہیں، ابواللیث ندوی، محمد یوسف، سراج الحسن، عبدالحق انصاری، اور جلال الدین عمری ۔اس میں دلچسپ بات یہ ہے کہ کسی امیر کی وفات امارت کی حالت میں نہیں ہوئی،یعنی بانی جماعت اسلامی سے لیکر کسی امیر جماعت نے اس عہدے سے تاحیات چمٹے رہنے کی کوشش نہیں کی، بلکہ بے نیازی کا کردار اپنایا۔جماعت اسلامی کے بانی سے لیکرپاک و ہند کے کسی بھی امیر جماعت کی اولاد کو وراثت کے طور پر یہ منصب نہیں ملا۔امارت سے سبکدوشی کے........

© Daily 92 Roznama


Get it on Google Play