مسلم دنیا میں رمضان المبارک کی آمد آمد ہے۔اس مقدس مہینے کے ساتھ خوشیوں سے بھری بہت سی روایتیں جڑی ہیں۔لیکن اس بار دل بے طرح اداس ہے اور یہ اداسی بعض اوقات ایک عجیب قنوطیت کی شکل میں ڈھل جاتی ہے جب کسی چیز میں دل نہیں لگتا صبح اور شام کے اوقات میں بے کیفی سے بھر جاتی ہیں اپنی پسند کے مشغلوں میں جی نہیں لگتا۔ مسکراہٹ روٹھ جاتی اور چہرے پر ایک تناؤ بسیرا کرلیتا ہے پھر میں خود کو کھوجتی ہوں تو دل کے کونے میں غزہ کی اداسی کی لہو لہان گھٹڑی پڑی ہے۔اس گھٹڑی کو کھولنے کی ہمت کس میں ہے یہ ہے میری گھمبیر اداسی کی وجہ میرا غزہ لہو لہان ہے۔ پانچ مہینے کی مسلسل بربریت نے غزہ کے لاکھوں گھروں کو ملیا میٹ کر دیا ہے۔ہزاروں والدین بچوں سے بچھڑ چکے ہیں، بچے اپنے والدین سے بچھڑ چکے ہیں۔جنوبی غزہ کی پٹی میں رفح کے مقام پر ہزاروں فلسطینی کیمپوں میں حسرت و یاس کی تصویر بنے بے حس مسلم دنیا کی طرف دیکھ رہے ہیں۔رمضان المبارک ان پر اس حال میں آرہا ہے کہ نہ ان کے گھر سلامت ہیں نہ ان کے پیارے۔غزہ میں کربلا برپا ہے۔میرے بچے غزہ میں بھوکے ہیں کھانے کو کچھ نہیں ہے۔ان کی ویڈیوز جن کی ایک جھلک بھی دیکھنے کی ہمت نہیں پڑتی مجھے اشکبار کرتی ہیں۔میں اپنی نظروں میں خود مجرم بن جاتی ہوں کہ میں بھی اسی" مسلم امہ" کا حصہ ہوں جو انسانیت اور حمیت سے عاری ہو چکی ہے۔ وہ "مسلم امہ" کیا ہوئی جس کے بارے میں کہا گیا کہ تمام مسلمان ایک جسم کی طرح ہیں جسم کے ایک حصے کو کانٹا بھی چبھ جائے تو دوسرا حصہ تڑپ اٹھتا ہے۔لیکن ہم کیسے مسلمان ہیں۔۔۔ ؟؟یہ کیسی مسلم دنیا ہے جن کے اہل اختیار عرب حکمرانوں کی سماعتیں فلسطینی بچوں کی چیخ وپکار سے پگھلتی نہیں؟؟ حکمران جن کے معاشی مفادات اسرائیل اور امریکہ سے وابستہ ہیں ان کے دل غزہ کے کربلا میں لہولہان ہوتے معصوم بچوں کی تکلیف پر پتھر کی طرح بے حس و حرکت پڑے رہتے ہیں۔مسلم دنیا کے اہل اختیار، حکمران، دانشور پالیسی ساز مل کر کوئی ایسا حل کیوں نہیں نکال سکے فلسطینیوں پر بارود کی بارش برساتے ہوئے اسرائیل اور اس کے حواریوں کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کیا جا سکتا کوئی معاشی بائی کاٹ ، کوئی کاروباری تعطل کی سکیم کچھ تو مسئلے کا حل نکالا جاسکتا تھا۔پانچ مہینے ہورہے ہیںکون جانے لہو اور آگ کا یہ کھیل غزہ کے باسیوں پر پانچ صدیوں کے برابر ہو۔فلسطینی بچے او آئی سی سے سوال کرتے ہیں‘ بولتے کیوں نہیں میرے حق میں‘ آبلے پڑ گئے زبان میں کیا؟ ادھر جواب میں راکھ کا ایک ڈھیر ہے جو اس قیامت سے بے خبر بے حس و حرکت پڑا ہے۔ جو دلخراشمناظر ہم دیکھ رہے ہیں یہ کسی بھی اہل درد کو تڑپانے کے لیے کافی ہیں ۔کہ کس طرح غزہ کے بچوں کو ذبح کیا جا کررہا ہے، ان کے کومل بدنوں کو کاٹا جا رہا ان کے ہسپتالوں کو ملبے کا ڈھیر بنایا جا رہا ہے۔روندا جا رہا ہے اور انہیں تڑپتا دیکھ کر سکیورٹی کونسل میں سیز فائر کی قرارداد کو ویٹو کرنے والے اپنی شیطانیت کی تسکین کرتے ہیں ۔میں کالم لکھتے وقت بھی اشکبار ہوں۔میری آنکھوں سے آنسو رواں ہیں لفظوں کی کشتیاں آنسوؤں میں ڈوب رہی ہیں۔کچھ سمجھ نہیں آتی کہ کیسے دل کا حال لکھوں۔ رمضان المبارک ایک دن کی دوری پر ہے مگر ابھی تک سیز فائر کا اعلان نہیں ہوااس بار رمضان المبارک میں غزہ کے لاکھوں گھروں میں رمضان المبارک کی آمد پر سجاوٹ کی روایتی لالٹینیں روشن نہیں ہوں گی کہ جن مکانوں پر استقبال رمضان میں لالٹینیں روشن کی جاتی تھیں وہ ملبے کا ڈھیر بن چکے ہیں۔جن گھروں میں کبھی رمضان کی رونقیں بسیرا کرتی تھیں وہ ویران پڑے ہیں۔میں اس کالم کے توسط سے سب پڑھنے والوں سے کہوں گی کہ اگر ہم اس قافلے میں شامل ہیں جو بے بس ہیں اور جو کچھ نہیں کرسکتا تو اس کا یہ مطلب بالکل بھی نہیں کہ ہم اپنے دلوں سے مظلوموں کا احساس بھی ختم کر دیں اور کسی احساس اور درد کی چبھن کے بغیر اپنے رمضان اور عید منائیں۔اللہ تعالی کو ہماری محدود طاقت کا اندازہ ہے اگر دل کے کسی کونے میں غزہ کے بچوں کا دکھ نہ ہوا ‘کوئی چھبن نہ ہوتو ہم سے بھی روز قیامت سوال ہوگا ‘ خدا کے لیے اپنے بچوں کے دلوں میں بھی یہ درد ڈالیں‘ انہیں غزہ میں تڑپتے ان کے ہم عمروں کا درد محسوس کرائیں۔ ان بچوں کے بارے میں بتائیں جن کے گھر ملبے کا ڈھیر بن گئے جو بغیر دواؤں کے زخمی تکلیف سے کرلا رہے ہیں۔اپنے بچوں کے لیے افطار کے دسترخوان سجاتے ہوئے انہیں غزہ کے بچوں کا درد ضرور بتائیں جنہوں نے گزشتہ پانچ مہینوں سے اپنی پسند کا کوئی کھانا نہیں کھایا جن کے لیے زندگی ایک بھیانک خواب سے بڑھ کر ہولناک ہو چکی ہے جو اپنی آنکھوں کے سامنے آگ اور بارود کے کھیل میں اپنے والدین اور خود کو جلتا ہوا دیکھ رہے ہیں۔ افطار کے لیے اپنے دسترخوان سجاتے ہوئے ہر روز ذہن میں رکھیں کہ غزہ کے مظلوموں کے لیے افطار کا وقت کسی شام غریباں کم نہیں ہوگا۔ میرا دل کہتا ہے کہ اس رمضان مسلمان ہونے کا اولین تقاضہ یہی ہے ۔اور اگر یہ بھی نہ کیا تو پھر ہمارے روزے بھوک پیاس کے سوا کیا ہوں گے۔خیال رہے کہ سوشل میڈیا پر ہمیں اپنے اسی درد کا عکس دکھانا ہے۔وہاں پر اپنی شاندار افطاریوں کی ویڈیو اور تصاویر سیلیبریشن کے احساس کے ساتھ ڈالنے سے گریز کریں۔ خدا نہ کرے کہ یہ رمضان ہم پر ایسے گزرے کہ غزہ کے مظلوموں کا خیال تک ہمارے دل سے نہ گزرے اور ہم اپنی افطاریوں ، سحریوں اور عید کی تیاریوں میں غرق رہیں ۔خدا نہ کرے کہ اللہ کے حضور ہمارے روزے محض بھوک پیاس کی مشقت گردانے جائیں !
QOSHE - غزہ کی شام غریباں اور استقبال رمضان - سعدیہ قریشی
menu_open
Columnists Actual . Favourites . Archive
We use cookies to provide some features and experiences in QOSHE

More information  .  Close
Aa Aa Aa
- A +

غزہ کی شام غریباں اور استقبال رمضان

9 0
11.03.2024




مسلم دنیا میں رمضان المبارک کی آمد آمد ہے۔اس مقدس مہینے کے ساتھ خوشیوں سے بھری بہت سی روایتیں جڑی ہیں۔لیکن اس بار دل بے طرح اداس ہے اور یہ اداسی بعض اوقات ایک عجیب قنوطیت کی شکل میں ڈھل جاتی ہے جب کسی چیز میں دل نہیں لگتا صبح اور شام کے اوقات میں بے کیفی سے بھر جاتی ہیں اپنی پسند کے مشغلوں میں جی نہیں لگتا۔ مسکراہٹ روٹھ جاتی اور چہرے پر ایک تناؤ بسیرا کرلیتا ہے پھر میں خود کو کھوجتی ہوں تو دل کے کونے میں غزہ کی اداسی کی لہو لہان گھٹڑی پڑی ہے۔اس گھٹڑی کو کھولنے کی ہمت کس میں ہے یہ ہے میری گھمبیر اداسی کی وجہ میرا غزہ لہو لہان ہے۔ پانچ مہینے کی مسلسل بربریت نے غزہ کے لاکھوں گھروں کو ملیا میٹ کر دیا ہے۔ہزاروں والدین بچوں سے بچھڑ چکے ہیں، بچے اپنے والدین سے بچھڑ چکے ہیں۔جنوبی غزہ کی پٹی میں رفح کے مقام پر ہزاروں فلسطینی کیمپوں میں حسرت و یاس کی تصویر بنے بے حس مسلم دنیا کی طرف دیکھ رہے ہیں۔رمضان المبارک ان پر اس حال میں آرہا ہے کہ نہ ان کے گھر سلامت ہیں نہ ان کے پیارے۔غزہ میں کربلا برپا ہے۔میرے بچے غزہ میں بھوکے ہیں کھانے کو کچھ نہیں ہے۔ان کی ویڈیوز جن کی ایک جھلک بھی دیکھنے کی ہمت نہیں پڑتی مجھے اشکبار کرتی ہیں۔میں اپنی نظروں میں خود مجرم بن جاتی ہوں کہ میں بھی اسی" مسلم امہ" کا حصہ ہوں جو انسانیت........

© Daily 92 Roznama


Get it on Google Play