الیکشن کے بعد کھینچا تانی کی فضا ،دھاندلی، احتجاج اور بے یقینی کے ماحول میں بالآخر پنجاب اسمبلی کے نئے منتخب ارکین نے حلف لیا۔حلف کے الفاظ سنتے ہوئے میں سوچ رہی تھی کہ اے کاش حب الوطنی کی اعلی اقدار کے خوبصورت جذبوں میں گندھے ہوئے حلف کے الفاظ اسمبلیوں میں آنے والوں کے دلوں پر بھی اثر کریں۔ جتنے خوبصورت اعلی انسانی اور اخلاقی اقدار سے مزین الفاظ اور جملے ہمارے یہاں تواتر سے بولے جاتے ہیں شاید ہی کہیں ان کا استعمال اس طرح سے ہوتا ہے مگر المیہ یہ ہے کہ اقوال کا یہ سنہرا پن عمل میں کم ہی چمکتا دمکتا ہے۔پنجاب اسمبلی کے اجلاس کاروائی ٹی وی پر دکھائی جا رہی تھی۔اس اجلاس کی اہم بات مریم نواز شریف کی موجودگی تھی۔ پنجاب اگلے پانچ سال کے لیے وہ پنجاب کی وزیراعلی کی حیثیت سے نامزد ہو چکی ہیں۔ایک طرف جہاں بطور وزیر اعلی پنجاب ان کے نامزدگی قدرے متنازع ہے دوسری طرف وہ پاکستان کی پارلیمانی تاریخ کی پہلی خاتون وزیراعلی کی حیثیت سے ایک پارلیمانی تاریخ بنائیں گی۔ بطور وزیراعلی پنجاب مریم نواز کی نامزدگی پر کچھ اختلافات پارٹی کے اندر سے ابھرے ہیں۔ ایک نقطہ نظر یہ ہے کہ اگر شہباز شریف مرکز میں وزیراعظم بنتے تو مریم نواز کو وزارت اعلی کے عہدے پر فائز نہیں کرنا چاہئے اس سے تاثر گہرا ہوتا کہ عہدے اپنے ہی خاندان میں بانٹے جا رہے ہیں۔ مسلم لیگ نون کو مریم نواز کی بجائے کسی تجربہ کار اور پرانے ساتھی کو سیاسی ورکر کو وزیراعلی بنانا چاہیے تھا۔مریم نواز کی حمایت میں کہا جا رہا ہے کہ مشکل وقت میں مریم نواز شریف نے پارٹی میں جان ڈالے رکھی، خصوصاً نوجوانوں کو متحرک کیا اور پھر جیل بھی کاٹی تو تجربے کی کچھ نہ کچھ گھاٹیوں سے وہ گزر آئیں ہیںپھر ان کی شخصیت میں خود اعتمادی ہے۔ گلیمر ہے وہ خوبصورت ہیں خوش لباس ہیں بولتی بھی اچھا ہیں ان کی شخصیت میں وہ چیز موجود ہے جو لوگوں کو ان کی طرف متوجہ کرتی ہے۔اپنے والد کی سیاسی زندگی کے اتار چڑھاؤ میں بھی وہ ان کے لیے اور پارٹی کے لیے ایک سیاسی سہارا ثابت ہوئی ہیں۔ لوگ ان کی بات کو سنتے ہیں جبکہ ان کے مقابلے میں حمزہ شہباز بھی اسی سیاسی ورثے کے مالک ہیں اسی سیاسی خاندان سے تعلق ہے انہیں سیاسی میدان میں اپنی قابلیت ثابت کرنے کا موقع بھی ملا تھا لیکن وہ اپنی غیر متاثر کن شخصیت سے سیاست میں رنگ نہیں جما سکے۔ ان کی سیاست پنجاب میں حمزہ گروپ تک ہی محدود رہی۔مسلم لیگ نون کے لیے مریم نواز کی بطور وزیراعلی نامزدگی ایک بولڈ فیصلہ ہے۔کیونکہ ایک تو وہ نواز شریف کی بیٹی ہونے کی وجہ سے ہی تنقید کی زد میں رہیں گی اور دوسری وجہ اگر ان کی کارکردگی بہتر نہ ہوئی تو ان پر تنقید زیادہ ہوگی۔ سوشل میڈیا پر موجود پی ٹی آئی کی بریگیڈ ویسے بھی ان پر کافی نظر کرم رکھتی ہے۔ بطور وزیراعلی ان کی کارکردگی سخت قسم کی سکروٹنی کی زد میں رہے گی جو ایک طرح سے اچھی بات ہے کہ ایک پریشر اور ایک دباؤ کا سامنا انہیں رہے گا جس سے امید کی جا سکتی ہے کہ ان کی کارکردگی بہتر ہوگی اور وہ پارٹی کی سطح سے اٹھ کر صرف لاہور کے لیے نہیں پورے پنجاب کے لیے پالیسیز بنا سکیں گی۔ ایک تو یہ کہ ان کا امیج بہت زیادہ بنانے کی کوشش کی گئی ہے کہ وہ پنجاب کے صوبے کو بہت آگے لے جائیں گی ۔ سو بہت زیادہ امیدیں اور توقعات وابستہ کی گئی ہیں جبکہ ان کے پاس گورننس کا کوئی تجربہ نہیں ہے۔ توقعات اور کم تجربہ کاری کے درمیان تعلق وقت ہے اس کا ایک دبائو پنجاب کبھی نون لیگ کا گڑھ ہوا کرتا تھا لیکن پی ٹی آئی نے نون لیگ کے ووٹ بینک کو درہم برہم کیا ہے ۔ یہاں پر جس طرح نون لیگ کو مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا ہے اور ان کے بڑے بڑے برج بھی پنجاب میں گرے ہیں اس سے مریم نواز کے پیش نظر یہ بھی ہوگا کہ وہ نون لیگ کا ووٹ بینک دوبارہ سے بڑھائیں۔ شہباز شریف ایک دہائی تک پنجاب کی وزارت اعلی کی کرسی سنبھالے رہے ہیں۔انہوں نے کام بھی کیے اور اچھے مینیجر کی شہرت بھی حاصل کی۔ لیکن ظاہر ہے کہ آئیڈیل کام نہیں ہوا بے۔ مسائل کے کوہ ہمالیہ موجود ہیں دیکھیں کہ مریم نواز بطور وزیراعلی کس طرح ان کو ہے ہمالیہ کو سر کرتی ہیں۔ گزشتہ چند سال کے سیاسی اتار چڑھاؤ نے مریم نواز کے لہجے میں بہت تلخی شامل کر دی ہے۔ اگر ان کی تقریریں اٹھا کے دیکھی جائیں تو اس میں بہت تلخ باتیں کرتی اور سیاسی مخالفین پر خصوصاً پی ٹی آئی کے سیاسی قیادت پر کڑی تنقید کرتی نظر آتی ہیں۔ بطور وزیراعلی پنجاب کے جہاں انہوں نے بہت سارے دوسرے چیلنجز کا سامنا ہوگا وہاں ایک چیلنج ان کے لیے یہ بھی ہوگا کہ اپنی شخصیت اور اپنے مزاج میں سیاسی حریفوں کے لیے اپنی تلخیوں کو کم کریں۔ اپنے الفاظ کو شائستہ بنانا پڑے گا یہ نہیں کہ ڈھکے چھپے الفاظ میں سیاسی مخالفین پر طنز کے نشتر چلاتی رہیں۔ اسی طرح مریم اورنگزیب جنہیں مرکز سے صوبے میں انہی کی مددگار کے طور پر لایا گیا ہے انہیں بھی چاہیے کہ حکومت میں آکر کام پر اپنی توجہ مرتکز کریں نا کہ مخالفین کے خلاف پریس کانفرنسیں کرنے میں اپنا وقت ضائع کریں۔ شہباز شریف نے دس سال تک بطور وزیر اعلی پنجاب چلایالیکن مریم ذہن میں رکھیں کہ وہ دور اس دور سے مختلف تھا۔ اس وقت انہیں بڑی مزاحمت کا سامنا ہے۔ پی ٹی آئی کی طرف سے ان کو ٹف ٹائم دیا جائے گا اب میدان کھلا نہیں ہے۔ جبکہ شہباز شریف کے دور میں مرکز میں بھی ان کی حکومت تھی اس بار مرکز میں ایک مخلوط حکومت بنے گی تو معاملات وہاں بھی پوری طرح نون لیگ کے کنٹرول میں نہیں ہوں گے۔ ایسے میں ایک مشکل سیاسی فضا بنے گی۔ جس میں عوام کو ڈلیور کر کے ، اور سیاسی طور پر اعلی ظرفی کا مظاہرہ کرکے ہی دل جیتے جا سکتے ہیں دوسرا اور کوئی راستہ نہیں ہے ! ٭٭٭٭
QOSHE - دوسرا کوئی راستہ نہیں! - سعدیہ قریشی
menu_open
Columnists Actual . Favourites . Archive
We use cookies to provide some features and experiences in QOSHE

More information  .  Close
Aa Aa Aa
- A +

دوسرا کوئی راستہ نہیں!

11 0
26.02.2024




الیکشن کے بعد کھینچا تانی کی فضا ،دھاندلی، احتجاج اور بے یقینی کے ماحول میں بالآخر پنجاب اسمبلی کے نئے منتخب ارکین نے حلف لیا۔حلف کے الفاظ سنتے ہوئے میں سوچ رہی تھی کہ اے کاش حب الوطنی کی اعلی اقدار کے خوبصورت جذبوں میں گندھے ہوئے حلف کے الفاظ اسمبلیوں میں آنے والوں کے دلوں پر بھی اثر کریں۔ جتنے خوبصورت اعلی انسانی اور اخلاقی اقدار سے مزین الفاظ اور جملے ہمارے یہاں تواتر سے بولے جاتے ہیں شاید ہی کہیں ان کا استعمال اس طرح سے ہوتا ہے مگر المیہ یہ ہے کہ اقوال کا یہ سنہرا پن عمل میں کم ہی چمکتا دمکتا ہے۔پنجاب اسمبلی کے اجلاس کاروائی ٹی وی پر دکھائی جا رہی تھی۔اس اجلاس کی اہم بات مریم نواز شریف کی موجودگی تھی۔ پنجاب اگلے پانچ سال کے لیے وہ پنجاب کی وزیراعلی کی حیثیت سے نامزد ہو چکی ہیں۔ایک طرف جہاں بطور وزیر اعلی پنجاب ان کے نامزدگی قدرے متنازع ہے دوسری طرف وہ پاکستان کی پارلیمانی تاریخ کی پہلی خاتون وزیراعلی کی حیثیت سے ایک پارلیمانی تاریخ بنائیں گی۔ بطور وزیراعلی پنجاب مریم نواز کی نامزدگی پر کچھ اختلافات پارٹی کے اندر سے ابھرے ہیں۔ ایک نقطہ نظر یہ ہے کہ اگر شہباز شریف مرکز میں وزیراعظم بنتے تو مریم نواز کو وزارت اعلی کے عہدے پر فائز نہیں کرنا چاہئے اس سے تاثر گہرا ہوتا کہ عہدے اپنے ہی خاندان میں بانٹے جا رہے ہیں۔ مسلم لیگ نون کو........

© Daily 92 Roznama


Get it on Google Play