دنیا بھر کی حکومتیں اور سیاسی کردار، قطع نظر اس سے کہ وہ جمہوری ممالک ہوں یا آمریت کے حامی دونوں میں، عوامی رائے کو اپنے حق میں ہموار کرنے کیلیے مصنوعی ذہانت (اے آئی) کے ذریعے لکھی گئی تحاریر اور اس کے ذریعے ہی بنائی گئی تصاویر، ویڈیوز اور آڈیوز کا سہارا لے رہے ہیں۔ دوسری طرف یہی کردارانٹرنیٹ پر موجود اپنے خلاف تنقیدی مواد کو خود بخود سنسر کرنے اور عوام تک پہنچنے سے روکنے کیلیے بھی اے آئی کا استعمال کر رہے ہیں۔ انسانی حقوق کی تنظیم فریڈم ہاؤس کی طرف سے جاری کردہ ایک نئی رپورٹ میںمحققین نے 16 ممالک بارے میں یہ کھوج لگایا ہے کہ کہاں کہاں مقتدر حلقوں نے اے آئی کے ذریعے شک کے بیج بوئے، مخالفین کی کردار کشی کی یا عوامی رائے کو متاثر کیا۔یہ تحقیق اس تنظیم کی سالانہ رپورٹ، فریڈم آن دی نیٹ،میں شامل ہے۔ اس رپورٹ کے ذریعے یہ تنظیم مختلف ممالک کی اس لحاظ سے درجہ بندی کرتی ہے کہ کس ملک میں کس قدر انٹرنیٹ کی آزادی ہے۔ اس میں وہ دیکھتے ہیں کہ کس ملک میں انٹرنیٹ کی کتنی بندش ہوئی، آن لائن اظہار رائے پر کتنی قدغن لگائی گئی، انٹرنیت پر پابندیوں کے کونسے نئے قوانین بنائے گئے اور مقتدر حلقوں کی پالیسی کے خلاف رائے کا اظہار کرنے والوں کے خلاف کیا کارروائی کی گئی۔ اس تنظیم کی درجہ بندی کے لحاظ سے سب سے غیر آزاد ملک چین ہے۔ اس درجہ بندی میں پاکستان کو بھی غیر آزاد ملکوں کی فہرست میں رکھا گیا اور اس درجہ بندی میں پاکستان سے ابتر صورتحال چین، میانمار، ایران، کیوبا، روس، ویت نام، ازبکستان، سعودی عرب اور بیلا روس میں ہے۔ رپورٹ کے ایک محقق، ایلی فنک کا کہنا ہے کہ انٹرنیٹ کی آزادی اس وقت اپنی کم ترین سطح پر ہے اور اے آئی کی ترقی اس بحران کو مزید سنگین بنا رہی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اس سال ان کی تحقیق کے سب سے اہم نتائج میں سے ایک کا تعلق حکومتوں کے اے آ ئی استعمال کرنے کے طریقے میں تبدیلیوں سے ہے۔ وہ اس بات کا اعتراف کرتے ہیں اس وقت وہ صرف سیکھنے کا آغاز کر رہے ہیں کہ ٹیکنالوجی کس طرح ڈیجیٹل جبر کو بڑھا رہی ہے۔فنک کے خیال میں ان تبدیلیوں کے پیچھے دو بنیادی عوامل ہیں: جنریٹیو اے آئی (جیسا کہ چیٹ جی پی ٹی) تک سستی اور آسان رسائی اس چیز کو آسان بناتی ہے کہ منظم انداز میں غلط معلومات کے مہم چلائے جائیں اور ساتھ ساتھ جدید ٹیکنالوجی کی بدولت خودکار نظام حکومتوں کو اس قابل بنا رہے ہیں کہ وہ زیادہ درست اور باریک بینی سے اپنے خلاف اٹھنے والی آوازوں کو آن لائن سنسر کر سکیں۔ جوں جوں تخلیقی اے آئی کے الگورتھم زیادہ طاقتور ہو رہے ہیں، مقتدر حلقے غلط معلومات کو بڑھانے کے لیے ٹیکنالوجی کا استعمال اتنا بڑھا رہے ہیں۔مثال کے طور پر وینزویلا کے سرکاری ذرائع ابلاغ انگریزی زبان کے کسی بین الاقوامی چینل کے نیوز اینکرزکی اے آئی سے تیار کردہ ویڈیوز کے ذریعے حکومت کے حامی پیغامات پھیلاتے ہیں۔ وہ یہ ویڈیوز بنانے کے لئے ایک کمپنی کے سافٹ وئیر استعمال کرتے ہیں جو اپنی مرضی سے جس چیز کیلیے چاہتے ہیں ڈیپ فیکس کا استعمال کرتے ہیں۔اس کے علاوہ امریکہ کے اندر اے آئی کے ذریعے بنانی جانی والی ویڈیوز اور سیاسی رہنماؤں کی تصاویر نے سوشل میڈیا پر جس طرح سے دھوم مچا دی اس سے سب لوگ واقف ہیں۔ ان مثالوں میں ایک ایسی ویڈیو بھی شامل ہے جس میں صدر بائیڈن کو خواجہ سراؤں کے خلاف تبصرے کرتے ہوئے دکھایا گیا ہے۔تخلیق یایٹولز کے علاوہ، حکومتیں وہ پرانے ہتھکنڈے بھی استعمال کرتی دکھائی دیتی ہیں جیسا کہ آن لائن بات چیت میں ہیرا پھیری کے لیے انسانی اور روبوٹکس آوازوں کے امتزاج کا سہارا لیا گیا۔اس رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ پرانے حربوں کو استعمال کرتے ہوئے کم از کم 47 حکومتوں نے 2023 میں پروپیگنڈا پھیلانے کے لیے تجزیہ نگاروں کو تعینات کیا جو ایک دہائی پہلے کی تعداد سے دوگنا ہے۔ محقق فنک کا کہنا ہے کہ اگرچہ ان کے لئے یہ پیشرفت حیران کن نہیں مگر ان کو یہ بات ضرور اہم لگتی کہ تخلیقی اے آئی کی وسیع رسائی کی وجہ سے قابل تصدیق حقائق پر اعتماد بھی کمزور پڑ سکتی ہے۔ جیسے جیسے انٹرنیٹ پراے آئی سے تیار کردہ مواد ایک معمول کی بات بن جائے گی ویسے ویسے مقتدر حلقوں کو قابل اعتماد معلومات کے بارے میں شکوک پیدا کرنے کا بہترین موقع ملے گا۔ فنک کہتے ہیں کہ یہ ایک ایسا رجحان ہے جس میں من گھڑت بات لوگوں کو سچی معلومات کے بارے میں بھی زیادہ شکوک و شبہات کا شکار بناتی ہے۔ خاص طور پر بحرانی صورتحا ل یا سیاسی تنازعہ کے وقت اس سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے۔مثال کے طور پر، اپریل 2023 میں، ایک سرکردہ ہندوستانی اہلکار، پالانیول تھیاگراجن کی لیک ہونے والی ریکارڈنگ نے اس وقت تنازعہ کو جنم دیا جب انہوں نے ایک سیاست دان کو ساتھی پارٹی کے اراکین کی توہین کرتے ہوئے دکھایا۔ اگرچہ تھیاگراجن نے آڈیو کلپس کو یہ کہہ کر مسترد کیا کہ یہ مشین سے تیار کردہ ہیں، مگر آزاد محققین اس نتیجے پر پہنچے کہ کم از کم ایک ریکارڈنگ مستند تھی۔ اس رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ آمرانہ حکومتیں، خاص طور پر، سنسر شپ کو زیادہ وسیع اور مؤثر بنانے کے لیے اے ئی کااستعمال کر رہی ہیں۔فریڈم ہاؤس کے محققین نے 22 ممالک کو دستاویزی شکل دی جنہوں نے نامناسب آن لائن مواد اے آئی کے ذریعے دور کرنے کے لیے قانون سازی کی اور انٹرنیٹ پلیٹ فارمز (ویب سائٹس) کو اس پر عمل کرنے کا پابند بنایا۔ مثال کے طور پر ہندوستان میں، وزیر اعظم نریندر مودی کی انتظامیہ کے حکام نے یوٹیوب اور ٹویٹر کو حکم دیا کہ وہ ریاست گجرات کے وزیر اعلیٰ کے طور پر مودی کے دور میں تشدد کے بارے میں ایک دستاویزی فلم تک رسائی کو محدود کریں۔
QOSHE - مصنوعی ذہانت سے غلط معلومات میں اضافہ - ڈاکٹر پرویز بزدار
menu_open
Columnists Actual . Favourites . Archive
We use cookies to provide some features and experiences in QOSHE

More information  .  Close
Aa Aa Aa
- A +

مصنوعی ذہانت سے غلط معلومات میں اضافہ

10 0
02.11.2023




دنیا بھر کی حکومتیں اور سیاسی کردار، قطع نظر اس سے کہ وہ جمہوری ممالک ہوں یا آمریت کے حامی دونوں میں، عوامی رائے کو اپنے حق میں ہموار کرنے کیلیے مصنوعی ذہانت (اے آئی) کے ذریعے لکھی گئی تحاریر اور اس کے ذریعے ہی بنائی گئی تصاویر، ویڈیوز اور آڈیوز کا سہارا لے رہے ہیں۔ دوسری طرف یہی کردارانٹرنیٹ پر موجود اپنے خلاف تنقیدی مواد کو خود بخود سنسر کرنے اور عوام تک پہنچنے سے روکنے کیلیے بھی اے آئی کا استعمال کر رہے ہیں۔ انسانی حقوق کی تنظیم فریڈم ہاؤس کی طرف سے جاری کردہ ایک نئی رپورٹ میںمحققین نے 16 ممالک بارے میں یہ کھوج لگایا ہے کہ کہاں کہاں مقتدر حلقوں نے اے آئی کے ذریعے شک کے بیج بوئے، مخالفین کی کردار کشی کی یا عوامی رائے کو متاثر کیا۔یہ تحقیق اس تنظیم کی سالانہ رپورٹ، فریڈم آن دی نیٹ،میں شامل ہے۔ اس رپورٹ کے ذریعے یہ تنظیم مختلف ممالک کی اس لحاظ سے درجہ بندی کرتی ہے کہ کس ملک میں کس قدر انٹرنیٹ کی آزادی ہے۔ اس میں وہ دیکھتے ہیں کہ کس ملک میں انٹرنیٹ کی کتنی بندش ہوئی، آن لائن اظہار رائے پر کتنی قدغن لگائی گئی، انٹرنیت پر پابندیوں کے کونسے نئے قوانین بنائے گئے اور مقتدر حلقوں کی پالیسی کے خلاف رائے کا اظہار کرنے والوں کے خلاف کیا کارروائی کی گئی۔ اس تنظیم کی درجہ بندی کے لحاظ سے سب سے غیر آزاد ملک چین ہے۔ اس درجہ بندی میں پاکستان........

© Daily 92 Roznama


Get it on Google Play