علامہ محمد اقبالؒ (3)
یہ بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ علامہ اقبال اپنی تمام تر خوبیوں کے ساتھ ساتھ بہت خوش مزاج، حاضر جواب اور بذلہ سنج بھی تھے اکثر اوقات ایسا لطیف مزاح یا طنز کرتے کہ محفل کشت ِ زعفران بن جاتی۔
علامہ بچپن ہی سے بہت ذہین و فطین اور حاضر جواب بھی تھے۔ یہ واقعہ تو بہت مشہور ہے کہ علامہ ایک بار سکول پہنچے تو بہت دیر ہوچکی تھی جب کلاس میں پہنچے تو اُن کے اُستاد نے اُن سے پوچھا کہ اقبال تم دیر سے کیوں آئے ہو؟ کم عمر اقبال نے برجستہ جواب دیا کہ جناب اقبال ہمیشہ دیر سے ہی آیا کرتا ہے۔ اس جواب پر آپ کو اپنے اُستاد سے بے حد شاباش ملی۔
فحش اداکارہ سے جنسی تعلق کا سکینڈل، ٹرمپ کے سابق وکیل نے بھی عدالت میں گواہی دیدیایک بار کسی کالج کے چند طلباء نے اقبال کو اپنے کسی ادبی جلسے میں شرکت کی دعوت دی، علامہ نوجوانوں کی حوصلہ افزائی کے لیے تشریف لے گئے۔ دورانِ جلسہ چند شوخ قسم کے لڑکوں نے علامہ کو چھیڑنے کی غرض سے کہا ”علامہ صاحب ایک مصرعہ ہے اگر آپ دوسرا مصرعہ موزوں کردیں تو ہم جانیں۔“ علامہ مسکرائے اور کہا اچھا بتاؤ مصرعہ۔ ایک نے مصرعہ سنایا: ”دشت اشکوں سے بھریں، آہ سے سوکھیں دریا“ علامہ اقبالؒ نے بلاتوقف شعر یوں مکمل کیا۔
دشت آنکھوں سے بھریں آہ سے سوکھیں دریا
مچھلیاں دشت میں پیدا ہوں ہرن پانی میں
ڈیفنس کے بنگلے سے لڑکی کی لاش ملنے کے معاملے میں اہم پیشرفت سامنے آگئییہ شعر سن کر حاضرین لاجواب ہوگئے۔
ایک بار ہندو اور سکھ طلباء کا ایک خصوصی وفد علامہ اقبال سے ملنے آیا۔ اِدھراُدھر کی باتیں ہوتی رہیں۔ اس دوران طلباء نے شکایتاً علامہ اقبال سے کہا: ”شاعر ساری انسانیت کے لیے لکھتا ہے لیکن آپ صرف مسلمانوں کے لیے ہی لکھتے ہیں حالانکہ آپ پر سارے ہندوستان کی مختلف قوموں کا حق ہے۔“ علامہ اقبال تھوڑی دیر سوچتے رہے پھر اُلٹا اُن سے سوال کردیا ”آپ مجھے یہ........
© Daily Pakistan (Urdu)
visit website