menu_open
Columnists
We use cookies to provide some features and experiences in QOSHE

More information  .  Close
Aa Aa Aa
- A +

   26 ویں آئینی ترمیم کے عدالتی ثمرات

19 0
09.12.2024

میری ریٹائرمنٹ سے قبل ایک دن استاد مکرم بیرسٹر فرخ قریشی دفتر آ پہنچے۔ کلب لے جا کر انواع و اقسام کے کھانے کھلائے، میری ہر کہی ان کہی کو سنی ان سنی کرکے حکم دیا کہ "آج سے صمدانی اینڈ قریشی میں بیٹھا کرو"۔ بڑوں کے اعتماد کی یہی وہ ناؤ ہے جسے کھیتے کھیتے ردائے زیست پر پھیلی زردی سے گزر کر اب میں گھنگھور اندھیروں میں گم ہوا چاہتا ہوں۔ عدالتوں میں مقدمات کے احوال دیکھنا شروع کیے تو دیکھا کہ 1986 کی عدلیہ اگر مثالی نہیں تو قابل قبول ضرور تھی۔ وکلا خوب تیاری کر کے ا ٓتے تھے، عدالتوں میں قانون ہی کی باتیں ہوتی تھیں، سیاست اور سیاسی ماحول بار میں تو زیر بحث آ جاتے لیکن عدالتی کٹہرا ان سے پاک تھا۔ اسی سال استاد محترم اور مثل باپ میرے پرورش کنندہ ڈاکٹر انیس احمد (رفاہ انٹرنیشنل کے موجودہ وائس چانسلر) نے مجھے بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی میں لے لیا۔ یوں عدلیہ سے تعلق تو موقوف ہو گیا لیکن یادیں کبھی محو نہیں ہوئیں۔

طلاق کے 50 سال بعد جوڑے کا دوبارہ شادی کا فیصلہ، دلچسپ کہانی سامنے آگئی

اب جب ریٹائرمنٹ کے بعد ادھر کا رخ کیا تو توبہ ہی بھلی۔ پہلے کبھی لکھ چکا ہوں کہ لائسنس ملنے پر گڑگڑا کر التجا کی تھی: "رب کریم! میرا رزق وکالت کے واسطے سے نہ دیجیو۔" یہ تب کی بات ہے جب بار اور عدلیہ قابل قبول حد تک گوارا تھے۔ معلوم ہوا کہ اب یہاں معاملات آئین و قانون نہیں، سیاست اور تعلقات پر طے ہوتے ہیں۔ بار اور عدالتیں، سبھی سیاست میں لتھڑے ہوئے ہیں۔ نئے لوگ اس کا ادراک نہیں کر سکتے کہ عدالتیں ہوتی کیا ہیں، چلتی کیسے ہیں، ان کا کام کیا ہوتا ہے، اڑھائی عشروں میں آئین شکنوں کی بد اعمالیوں کے باعث آئین و قانون دلیل، عقل اور مکالمہ ہر شعبے سے ہجرت کر چکے........

© Daily Pakistan (Urdu)


Get it on Google Play