صوفی تبسم ایک ہمہ گیر شخصیت (2)
صوفی صاحب نے تعلیم بالغاں کے لیے جریدہ ”دوست“ کے نام سے نکالا جو اِنہی کی ادارت میں خاصا کامیاب رہا۔ گورنمنٹ کالج میں ادیب فاضل کی شام کی کلاسیں صوفی صاحب نے ہی شروع کروائیں۔
صوفی صاحب جب نیوہوسٹل گورنمنٹ کالج منتقل ہوئے تو وہاں پطرس بخاری صاحب بھی آتے جو اس وقت گورنمنٹ کالج کے پرنسپل اور صوفی صاحب کے دوست بھی تھے۔ یہ علمی و ادبی حلقہ ”نیازمندانِ لاہور“ کے نام سے مشہور ہے۔ جن میں پطرس بخاری کے ساتھ ساتھ ڈاکٹر ایم ڈی تاثیر، عبدالمجیدسالک، چراغ حسن حسرت، حفیظ جالندھری، پنڈت ہری چند اختر، کرنل مجید ملک، امتیاز علی تاج اور عبدالرحمن چغتائی شامل تھے۔ گورنمنٹ کالج سے ریٹائرمنٹ کے بعد صوفی صاحب سنت نگر کی حویلی منتقل ہوئے اور پھر 1964 سے سمن آباد رہائش پذیر رہے، جہاں ادبی مجالس کا سلسلہ جاری و ساری رہا اور ان مجالس میں اُستاد دامن، احسان دانش، فیض احمد فیض، کشور ناہید، یوسف کامران، ڈاکٹر حمیدالدین، عابد علی عابد اور کئی نامور شخصیات سے گیلری بھری رہتی۔
پہلے مرحلے میں وزیر اعظم ن لیگ سے دوسرے میں پیپلزپارٹی سے ہونا چاہیے، شہباز شریف کی تجویزصوفی صاحب ریٹائرمنٹ کے بعد بھی علمی و ادبی کاموں میں مصروف رہے اور 1956 میں صوفی صاحب خانہئ فرہنگ اسلامیہ جمہوریہ ایران کے پہلے ڈائریکٹر مقرر ہوئے۔ صوفی تبسم صاحب کی شخصیت اور ادارہئ خانہئ فرہنگ ایران کو لازم و ملزوم کہا جائے تو قطعی طور پر غلط نہ ہوگا چونکہ یہ دونوں یعنی شخصیت اور ادارہ ایک ہی تصویر کے دو رُخ ہیں۔ چونکہ شاید بہت کم لوگ یہ جانتے ہیں کہ لاہور میں موجود خانہئ فرہنگ اسلامیہ جمہوریہ ایران کا تصور اور اس کے قیام کی پہلی کاوش خود صوفی تبسم صاحب ہی کی بدولت باروَر ہوئی۔
صوفی صاحب نے درحقیقت مملکت ِ پاکستان و ایران کے رابطوں کی اُستوار........
© Daily Pakistan (Urdu)
visit website