ہم نے پاکستان پستی میں ڈھلتے اور ڈھاکہ ابھرتے دیکھا!
یہ خاکسار بہت عرصہ پہلے سے کتاب لکھنے اور اس کی اشاعت کے متعلق سوچ رہا تھا. لیکن موضوع کی تلاش تھی۔اب ہمیں کتاب لکھنے کا موضوع مل گیا ہے اور اب ہم سنجیدگی سے کتاب کے پیچھے پڑنے والے ہیں۔کافی عرصہ پہلے ضیاء الحق کے سابق ملٹری سیکرٹری صدیق سالک صاحب کی ایک کتاب پڑھی تھی. "میں نے ڈھاکہ ڈوبتے دیکھا" اس کتاب کے چند صفحات پڑھ کر ہی اندازہ ہو جاتا ہے کہ مشرقی پاکستان الگ کیوں ہوا تھا. لیکن آج کے اعدادوشمار سے پتا چلتا ہے کہ ڈھاکہ ڈوبا نہیں بلکہ ابھرا ہے. اور اگر کوئی ملک ڈوبنے کی طرف سفر کر رہا ہے تو وہ پاکستان ہے. جس کی بڑی وجہ کسی مناسب یا موزوں سیاسی نظام کا فقدان ہے. ہم بظاہر آگے کا سفر کر رہے ہیں لیکن جب غور کرتے ہیں تو لگتا ہے کہ ہم گزرے زمانے کے لوگ ہیں۔اس وقت اگر پاکستان اور بنگلہ دیش کے معاشی اشاریے دیکھے جائیں تو بنگلہ دیش ہر اشاریے میں پاکستان سے آگے ہے. ہم نے اپنے بزرگوں سے سنا تھا کہ سقوط ڈھاکہ سے پہلے مغربی پاکستان کے حکمرانوں نے عوام میں بنگالیوں کے بارے یہ تاثر پیدا کر رکھا تھا کہ یہ پست قد لوگ بچے پیدا کرنے کے علاوہ کچھ نہیں کر سکتے اور بنگال میں دھان کے علاوہ کچھ پیدا ہی نہیں ہوتا لیکن آج ہمارے سامنے تو اس کا الٹ ہیکیونکہ تاریخی کتابوں کے مطابق متحدہ پاکستان کے وقت بنگالی بنگال میں مغربی پاکستان کے افسروں کے گھروں میں کام مل جانے کو ہی خوش قسمتی سمجھتے تھے اور مغربی پاکستان میں آ کر چھوٹے کام حاصل کرنے کی تگ و دو کرتے تھے. جبکہ اس وقت پاکستان کے........
© Daily Pakistan (Urdu)
visit website