وزیرِتعلیم، زیرِتعلیم،زیرو تعلیم
پنجاب کا تعلیمی ماحول انتظامی لحاظ سے پچھلے تقریباً 35 برسوں سے پراگندگی کا شکار ہے۔سیاسی مصلحتوں کے تحت قائم کیے گئے بیش تر سکول وہ اصل نتائج اور حقیقی مقاصد حاصل کرنے میں ناکام رہے ہیں جن کے لیے یہ قائم کیے گئے تھے۔ اساتذہ کی سیاسی سرپرستی نے نظام کو ڈانواں ڈول کر رکھا ہے۔اساتذہ کو غیرضروری مصروفیات اور ذمہ داریوں میں الجھا کر معیاری تعلیم کا بت ریزہ ریزہ کر دیا گیا۔پولیو کے قطرے پلانے کی مہم ہو یا مردم شماری کا کام، الیکشن ڈیوٹی ہو یا سیاسی جلسوں کی نشستیں بھرنے کا معاملہ ہو، اساتذہ کو ایک حکم نامے کے ذریعے کلاس روم سے بلا لیا جاتا ہے۔ بچے بے چارے منہ تکتے رہ جاتے ہیں۔سکولوں کے انتظامی افسروں کی تعیناتیاں بھی اہل اقتدار اور افسر شاہی کی پسند ناپسند سے ہوتی ہیں۔اساتذہ کے تبادلے بچوں کی تعداد کو پیش نظر رکھے بغیر ہوتے ہیں۔تبادلوں کے معاملے میں خواتین اساتذہ ظلم کا شکار رہتی ہیں۔بعض اوقات انھیں ان کے گھروں سے بہت دور پوسٹنگ دی جاتی ہے۔واپس آنے کے لیے انھیں دفتری استحصالی نظام کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ وزرائے تعلیم جب نئے نئے آتے ہیں تو ان سارے مسائل اور مصائب سے نمٹنے کا ارادہ کرتے ہیں لیکن جلد ہی وہ نمک کی کان کا حصہ بن جاتے ہیں۔
گندم کی اضافی درآمد........© Daily Pakistan (Urdu)
visit website