اسلامی تمدن میں اخوت کا مقام
اخوت کا لفظ اَخ سے نکلا ہے اَخ کے معنی بھائی اور اخوت کا معنی بھائی چارہ ہے۔ اُمت مسلمہ کے افراد کو محبت اور پیار کی لڑی میں پرونے کے لیے ان میں اَخوت کا رشتہ قائم کیا گیا۔ اس رشتے نے ملت اسلامیہ کے تمام افراد کو ایک جسم کے مختلف اعضاء بنا دیا ہے اور ان کے درمیان، رحم، ہمدردی، محبت و شفقت، خیرخواہی اور صلح صفائی کی اعلیٰ صفات پیدا کردی ہیں۔ یہ رشتہ رنگ و خون نسل و زبان کے رشتوں سے بالاتر ہے اور مضبوط بھی ہے۔ غیرمسلموں سے انسانی مساوات کی بنا پر تعلقات ہوسکتے ہیں، رشتے کی بنا پر خونی تعلقات بھی ہوسکتے ہیں۔ لیکن ایک ملت و جماعت کے افراد ہونے کی حیثیت سے دلی اور روحانی تعلق صرف مسلمانوں سے ہی ہوسکتا ہے۔ دراصل یہ تعلق اللہ تعالیٰ کا ایک خاص انعام اور اسلام کا ایک امتیازی نشان ہے۔ اس امتیازی نشان نے دنیابھر کے مسلمانوں کو ایک مرکز پر جمع کردیا ہے اور ہر وہ چیز جو اس عظیم رشتے میں روڑے اٹکائے اسے ناجائز ٹھہرایا ہے۔
سینیٹ الیکشن، ایم کیو ایم کا پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کے امیدواروں کی حمایت کا اعلانمثال کے طور پر مسلمانوں کے درمیان حسد، تعصب، کینہ، عیب جوئی، غیبت اور فریب دہی وغیرہ ان تمام برائیوں کو سخت نفرت کی نگاہ سے دیکھا گیا ہے اور قرآن حکیم کی رُو سے ان تمام برائیوں کو حرام قرار دیا گیا ہے۔
اسلامی تمدن کی سب سے بڑی خصوصیت بھائی چارے کا نظریہ ہے۔ قرآنِ حکیم کی رُو سے اخوتِ اسلامی اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک عظیم نعمت ہے جس کو ہمیشہ یاد رکھنا اور جس پر خدا کا شکر بجالانا فرض ہے۔ رسولِ پاک صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے دنیا میں آنے سے پہلے دنیا رنگ و خون اور نسل وزبان کے تنگ دائروں میں بنی ہوئی تھی۔ مختلف قبیلے ایک دوسرے کے خون کے پیاسے تھے، کینہ، بغض اور عداوت کے باعث ہر وقت جنگ وجدل جاری رہتا تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم اس دنیا میں تشریف لائے........
© Daily Pakistan (Urdu)
visit website