پروفیسر زبیر کا طمانچہ اور ججوں کے الزامات (۱)
لیکن پہلے چیف جسٹس فائز عیسیٰ کے تدبر کی ستائش جنہوں نے 6ججوں کے خط سے پیدا شدہ بحران سے ملک کو بڑی بصیرت اور خاموشی سے نکال دیا۔ استاد محترم نے6ججوں کا خط بنام سپریم جوڈیشل کونسل دے کر حکم دیا کہ اگلا کالم اس پر آنا چاہیے۔12صفحاتی راگ مالا بار بار پڑھی۔ دستور متصور کیا، کچھ یاد نہ آیا تو دستور کھولا، رات گئے پڑھتا رہا۔ بارے خدا ذہن ریختہ سا ہوگیا تو سوچا صبح استاد محترم سے پوچھوں گا:"اس رام لیلا کا جوڑ سپریم جوڈیشل کونسل سے کس نے بنایا، کونسل تو عدلیہ کے خلاف دادرسی کی جگہ ہے اور خط خفیہ ادارے کے خلاف ہے۔ صبح اخبار دیکھے تو کیا ماہرین دستور اور کیا ٹام، ڈک، ہیری اور کیا اپنے ایرے غیرے نتھو خیرے، سبھی ٹھٹھا مخول کر رہے تھے کہ کونسل خفیہ ایجنسی کے خلاف بھی کارروائی کا اختیار رکھتی ہے، واہ۔ تب اپنی ہی تجویز یاد آئی کہ سال میں کم از کم ایک دفعہ تمام کلیدی عہدے داروں کا نفسیاتی معائنہ ہونا چاہیے۔
پی ٹی آئی اور جماعت اسلامی نے ماضی کی تمام غلط فہمیوں کو دور کر کے آگے بڑھنے پر اتفاق کرلیاجسٹس شوکت صدیقی کہہ رہے تھے کہ جب میں نے 2018ء میں اسی خفیہ ادارے پر پہلا پتھر پھینکا تو میرے دو بیٹوں پر قاتلانہ حملے ہوئے، بیٹی کو اغوا کرنے کی کوشش کی گئی۔ تب ان خط نویسوں میں سے چار میرے رفیق کار تھے،لیکن میں ان سب کے لیے اجنبی قرار پایا۔ سب نے مجھ سے قطع تعلق کر کے ہاتھ ملانا بھی چھوڑ دیا. اپنی بیٹی کی شادی پر انہیں بلایا تو ایک بھی نہ آیا۔ تب یہ لوگ دیوار کی دوسری جانب کھڑے تھے۔ مجھے جسٹس صدیقی سے ہمدردی تو بہت ہے، پر کوئی تعجب نہیں ہوا۔ پھر اسی حالیہ خط کے ساتھ دوسرا خط دیکھا جو ان کے چیف کے نام تھا۔ذہن میں یزداں اور اہرمن والے مکالمے کا مصرع سوالی بن........
© Daily Pakistan (Urdu)
visit website