menu_open
Columnists
We use cookies to provide some features and experiences in QOSHE

More information  .  Close
Aa Aa Aa
- A +

جمہوری عدلیہ بمقابلہ بادشاہی عدلیہ

11 0
17.03.2024

سیاستدان معاملات کو خود سلجھانے کی بجائے آج کل عدالتوں کا رخ کرتے ہیں۔ پھر پتا چلتا ہے کہ فریقین برابر اور ٹکر کے ہیں۔ سیاسی مقدمات میں بعض منصفین کے میلانات مقدمات پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ فہرست طویل ہے لیکن چند نمونوں سے سب واقف ہیں:ثاقب نثار، کھوسہ، بندیال، گلزار، اعجاز الحسن، مظاہر اکبر نقوی وغیرہ۔ اعلیٰ سطحی مقدمات میں حکومتی موقف اور بسا اوقات درست موقف منصف کی خواہش کے برعکس ہو تو خبر یوں آتی ہے :"چیف جسٹس اٹارنی جنرل پر برہم" آپ گوگل سے کوئی ملتا جلتا جملہ مانگیں، جیسے "چیف جسٹس کی وکیل کو سرزنش" یا "اٹارنی جنرل پر جسٹس فلاں کی خفگی" یا "جج صاحب کی ایڈوکیٹ جنرل پر برہمی"آپ دیکھیں گے کہ سینکڑوں ہزاروں خبریں منہ چڑھا رہی ہوں گی۔ بار اور بینچ ایک ہی گاڑی کے دو پہیے ہیں۔ یہ جملہ بار اور بینچ دونوں سے سننے پڑھنے کو ملتا ہے ۔ گویا وکیل اور منصف برابری کی بنیاد پر آمنے سامنے آتے ہیں۔ اگر واقعتا ایسا ہے تو اٹارنی جنرل، ایڈوکیٹ جنرل اور وکلا پر کسی منصف کی برہمی کا کوئی جواز مجھے نہ تو کبھی عقل عام میں مل سکا اور نہ میں نے ان چند ملکوں میں کبھی دیکھا سنا جن کے ججوں عدالتوں سے مجھے متعدد مرتبہ ملنے جلنے کے مواقع ملتے رہے ۔

جسٹن ٹروڈو نے کینیڈا کی وزارت اعظمیٰ کو پاگل کردینے والی جاب قرار دے دیا

سیشن ججوں اور عدالتی زمروں کے افسروں کو میں مدینہ ہائی کورٹ میں لے گیا۔ رابطہ عالم اسلامی کے سیکرٹری جنرل عبداللہ عمر نصیف سے مکہ میں ہماری ملاقات میں سعودی رابطہ افسروں کو ہدایت ہوئی کہ عدالتی کارروائی دکھاتے وقت ان کا خاص خیال رکھا جائے ۔1991ءکی بات ہے ، موبائل نہیں ہوتے تھے ۔ سعودی ہمیں مدینہ ہائی کورٹ لے گئے تو........

© Daily Pakistan (Urdu)


Get it on Google Play