محمد نوید نواز
میں ایک لاکھ دفعہ کہنے کو تیار ہوں کہ 16دسمبر 1971 کو پاکستان کو شکست نہیں ہوئی تھی۔ آئیے دیکھتے ہیں کیسے۔ اکتوبر 1958سے دسمبر 1971تک ، 13سال سے زیادہ عرصہ میں جو کچھ اس زمانے کے وفاقی آمروں نے مشرقی پاکستانیوں کے ساتھ کیا تھا، یہ انکی ذاتی خواہشات اور انکی حکمرانی کے نظریے کے مطابق تھا، اسے مغربی پاکستان کے عوام کی تائید حاصل نہیں تھی۔ ان تیرہ سال میں عوام کی مرضی کی حکومت تھی ہی نہیں۔ ایوب اور پھر یحییٰ آمریت عوام پر مسلط کی گئی تھی۔ اس لیے صرف مشرقی ہی نہیں بلکہ مغربی پاکستان کے عوام بھی حکمرانوں کی ظالمانہ پالیسیوں سے نہ صرف لاتعلق رہے بلکہ حتی الوسع ان ظالمانہ پالیسیوں کے خلاف احتجاج بھی کرتے رہے۔ حبیب جالب، خان ولی خان اور پروفیسر وارث میراُن احتجاج کرنے والوں میں چند مثالی کردارہیں ۔ جو تمام مغربی پاکستانیوں کی سوچ اپنی زبان سے بیان کر رہے تھے۔ اسی ظلم کے خلاف حبیب جالب نے یوں آواز اٹھائی تھی ۔
محبت گولیوں سے بو رہے ہو
وطن کا چہرہ خوں سے دھو رہے ہو
گماں تم کو کہ رستہ کٹ رہا ہے
یقیں مجھ کو کہ منزل کھو رہے ہو
اس لیے 16دسمبر 1971کو سرنڈر ضرور ہوا تھا مگر یہ پاکستان کی شکست نہیں تھی بلکہ آمرانہ نظریے اور فلسفے کی شکست تھی۔ مشرقی پاکستان میں لڑنے والی فوج بھی بے تُکی پالیسیوں کے خلاف تھی۔ 1971 کی جنگ کے دوران مشرقی پاکستان میں تعینات اور بعد میں اٹک سازش کیس سے شہرت پانے والے میجر راجہ نادرپرویز اور کیپٹن سرور محمود اظہر نے مجھے واضح طور پر بتایا تھا کہ سینئرز کا آرڈر ماننا تو فوجی ڈسپلن کی ضرورت تھی۔ تاہم دل سے اکثر آفیسر ظالمانہ پالیسیوں کے خلاف تھے۔ بعد میں میجر جنرل حکیم ارشد قریشی (جو 1971 میں بحیثیت لیفٹیننٹ کرنل ایک رجمنٹ کی کمانڈ کر رہے تھے) نے مجھے ایک ٹی وی انٹرویو میں بتایا تھا کہ ہم میں سے اکثر مشرقی پاکستان کے بہن بھائیوں کیلئے ہمدردی رکھتے تھے مگر سینئرز کا آرڈر ماننا ہماری مجبوری تھی۔ ان شواہد سے ثابت ہوتا ہے کہ پاک آرمی آج کل کی طرح اس زمانے میں بھی کوئی ایسا کام نہیں کرنا چاہتی تھی جو ملکی سلامتی کے خلاف ہو۔ تاہم اس وقت حکمرانی کرنے والے ٹولے کی سوچ ایک حاضر سروس آرمی آفیسر کی زبانی سنئے۔........





















Toi Staff
Sabine Sterk
Penny S. Tee
Gideon Levy
Waka Ikeda
Grant Arthur Gochin