حامد میر
یہ ایک بہادر عورت کے انکار کی کہانی ہے۔ اس انکار نے قابض فوج کے ایک متکبر اور مکار جرنیل کو غصے میں پاگل کردیا۔ جرنیل اس عورت کو اپنی مخبر بنانا چاہتا تھا۔ عورت نے مخبر بننے سے انکار کیا۔ یہ انکار سن کر طاقت کے نشے میں ڈوبے جرنیل نے اس عورت کو غدار قرار دیدیا اور اسے موت کی سزا سنا ڈالی۔ فوری طور پر زنجیروں میں جکڑی عورت کو فائرنگ اسکواڈ کے سامنے کھڑا کردیا گیا۔ جرنیل کا خیال تھا کہ بندوقوں کا رخ اپنے سینے کی طرف دیکھ کر یہ عورت گھبرا جائے گی اور رحم کی بھیک مانگے گی لیکن اس عورت نے بندوق برداروں کو بلند آواز میں پکار کر کہا’’مارو گولی‘‘ ۔یہ سن کر جرنیل نےفائر کا حکم دیا اور کئی گولیاں اس بہادر عورت کے سینے میں اتر گئیں۔ اس بہادر عورت کا نام عزیز النسا تھا جس نے 1857ء کی جنگ آزادی میں قابض برطانوی فوج کیخلاف بغاوت میں ایک جنگجو کے طور پر حصہ لیا۔ برطانوی فوج کے افسر میجر جنرل ہنری ہیولاک نے کانپور کو فتح کیا تو مرد سپاہی کےلباس میں گرفتار ہونیوالی عزیز النسا کو اس کے سامنے پیش کیا گیا۔ اسے بتایا گیا کہ یہ کانپور کی مشہور طوائف عزیز النسا ہے جو رات کوگھنگھرو پہن کر ہمارے افسروں کے سامنے ناچتی تھی اور انکے راز چرا کر باغیوں تک پہنچاتی تھی اور پھر دن کے وقت تلوار تھام کر برطانوی فوج پر حملہ آور ہو جاتی تھی۔ ہیولاک بہت حیران ہوا کہ کانپور میں عزیزن بائی کے نام سے جانے، جانیوالی یہ پچیس سالہ طوائف ناصرف تلوار بازی اور بندوق چلانا جانتی ہے بلکہ گھڑ سواری میںبھی ماہر ہے۔ اس کا خیال تھا کہ اس ناچنے والی کو جان بخشی کے عوض باغیوں کیخلاف استعمال کیا جائے لیکن عزیزن بائی کے اندر موجود عزیز النسانے اپنا ضمیر بیچنے سے انکار کرکے موت کو گلے لگا لیا۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ 1857ء کی جنگ آزادی کی اس مجاہدہ کو زیادہ لوگ نہیں جانتے لیکن اسے گولی مارنے کا حکم دینے والے برطانوی افسرمیجر جنرل ہنری ہیولاک کا مجسمہ آج بھی لندن کے ٹریفلگر اسکوائر میں نصب ہے اور لکھنؤ کے عالم باغ میں اس کا مقبرہ بھی موجود ہے۔ برطانوی سرکارنے اسے یاد رکھا کیونکہ ہیولاک نے 1839ء میں پہلی اینگلو افغان جنگ میں بھی اہم کردار ادا کیا تھا۔ وہ کابل........
© Daily Jang
visit website