menu_open
Columnists Actual . Favourites . Archive
We use cookies to provide some features and experiences in QOSHE

More information  .  Close
Aa Aa Aa
- A +

افضال ریحان

33 1
04.05.2024

‎(گزشتہ سے پیوستہ)‎

واقعی ہمیں دوسرے ممالک سے تجارتی تعلقات بڑھانے چاہئیں مگر ہمارے پاس دوسروں کو بیچنے کیلئےہے کیا؟ محض کھیلوں کے سامان اور کاٹن کے کپڑوں سے ہم کتنا زرمبادلہ کماسکتے ہیں؟ ہماری پلاننگ کا یہ حال ہے کہ چند ماہ قبل ہماری کیئرٹیکر حکومت نے مہنگے داموں اتنی گندم منگوالی کہ آج ہمارا اپنا کسان رل رہا ہے، حکومت نے گندم کے حوالے سے اسے بے یارومددگار چھوڑ دیا ہے۔ بدقسمتی سے خود ایران پر مزیدعالمی پابندیاںلگنے جارہی ہیں امریکیوں نے ہمیں صاف صاف کہہ دیا ہے کہ ذرا سوچ سمجھ کر فیصلہ کرنا، واشنگٹن گزشتہ بیس برس سے پاکستان کا سب سے بڑا سرمایہ کار ہے پاکستان کی برآمدات بھی سب سے زیادہ امریکا اور یورپ میںجاتی ہیں ہم تو تجارت ہی نہیں ایف 16سے لیکر اپنےزیا دہ تر اسلحے کے حوالے سے بھی امریکا سے رجوع کرتے ہیں اور انہی دنوں امریکا نے ہمیں بیلسٹک میزائل پروگرام میں تعاون فراہم کرنے والی چار کمپنیوں پر پابندی عائد کردی ہے ان میں سے تین چینی اور ایک بیلاروس کی کمپنی ہے۔ بہر کیف اگر ہم ایران اور افغانستان کی طرف سے بد اعتمادی اور سمگلنگ ایسی باہمی آویزش سے باہر نکل آئیں تو بڑی بات ہوگی ۔‎ایرانی صدر نے بہت اچھا کیا کہ کشمیر کے بارے میں کوئی بات نہ کی اور خواہ مخواہ بھارت کی نظروں میں خود کو مشکوک بنانے سے احتراز کیا ۔ ایران سے بلاشبہ ہم اچھی ہمسائیگی کے برادرانہ تعلقات کے خواستگار ہیں لیکن اتنے ہی ہم سعودی عرب کی دوستی کے بھی خواہاں ہیں بلکہ سچ تو یہ ہے کہ کنگڈم آف سعودی عریبیہ سے ہماری معاشی مجبوریاں اور قریبی تعلقات کی خواہش ایران سے بھی بڑھ کر ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہم نے ایرانی صدر ابراہیم رئیسی کی اس خواہش کے باوجود کہ وہ پاکستانی عوام سے براہِ راست مخاطب ہوں یا ہماری پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کریں ، معذرت کی اور ایسا موقع........

© Daily Jang


Get it on Google Play