menu_open
Columnists
We use cookies to provide some features and experiences in QOSHE

More information  .  Close
Aa Aa Aa
- A +

ڈاکٹر مرزا اختیار بیگ

25 12
11.03.2024

میں نے کچھ ماہ قبل دنیا میں تیزی سے فروغ پانے والی گرین اکانومی، گرین انڈسٹریز اور گرین فنانسنگ پر کالم تحریر کیا تھا جس میں گلوبل وارمنگ کے بڑھتے ہوئے مسائل اور ماحولیاتی آلودگی کم کرنے کیلئے جدید گرین انڈسٹریز کی ضرورت پر زور دیا گیا تھا جو گرین اکانومی کا ایک اہم جزو ہے۔ آج میں بلیو اکانومی یعنی آبی معیشت کے بارے میں قارئین سے معلومات شیئر کرنا چاہوں گا۔ بلیو اکانومی ایک جدید معاشی ماڈل ہے جس میں معاشی ترقی کیلئے سمندری حدود میں موجود قدرتی آبی وسائل اور اس سے وابستہ معیشت کو بلیو اکانومی کا نام دیا گیا ہے جس میں تیل و گیس کے ذخائر (آف شور ڈرلنگ)، سی فوڈ، فشریز، شپنگ، سیاحت، ساحلی ہوٹلز، ساحلی ہوائوں سے ونڈ اور شمسی توانائی، ایکواکلچر، زیر آب معدنیات اور قیمتی پتھر، سمندری پانی کو میٹھا بنانے کے ڈی سیلی نیشن پلانٹس وغیرہ شامل ہیں۔ کرہ ارض کا تین چوتھائی 75فیصد حصہ سمندر اور ایک چوتھائی یعنی 25 فیصد زمین پر مشتمل ہے جبکہ دنیا کی معیشتوں کا زیادہ تر دارومدار زمینی قدرتی وسائل پر ہے جو کرہ ارض کا صرف 25 فیصد ہے جبکہ سمندر میں موجود 75 فیصد قدرتی وسائل کو بہت کم استعمال میں لایا گیا ہے۔ پاکستان کے جنوب میں بحیرہ عرب ہے جس کا ساحل 1046 کلومیٹر طویل ہے جس میں سندھ سے ملحق انڈس آف شور 270 کلومیٹر اور بلوچستان سے ملحق مکران آف شور 720 کلومیٹر شامل ہیں جس میں مچھلیوں اور جھینگوں کے علاوہ معدنیات اور آئل گیس کے ذخائر پائے جاتے ہیں۔ پاکستانی سمندر کا ساحل 350 ناٹیکل میل تک پھیلا ہوا ہے جس کو 5 زونز گوادر کوسٹ، لسبیلہ کوسٹ، کراچی کوسٹ، ٹھٹھہ کوسٹ اور رن کچھ بدین کوسٹ میں تقسیم کیا گیا ہے۔ پاکستان کی بلیو اکانومی میں کراچی اور پورٹ قاسم کی بندرگاہیں، فشریز، آئل ٹرمینلز، ایکسپورٹ پروسیسنگ زونز، اسٹیل ملز، گڈانی شپ بریکنگ انڈسٹریز، گوادر پورٹ اور پاک چائنا ایکسپورٹ پروسیسنگ زون وغیرہ........

© Daily Jang


Get it on Google Play