اُردو تنقید نگاری کی آبرو، ڈاکٹر وحید قریشی
کچھ لوگوں کو اللہ تعالیٰ ایسی صفات عطا کرتا ہے۔ جس سے خلقِ خدا کو بہت روشنی اور راحت نصیب ہوتی ہے۔ اُن لوگوں میں بڑی بات یہ ہوتی ہے کہ وہ بے پناہ علم حاصل کرنے کے باوجود انتہائی منکسر، پُر مزاج ہوتے ہیں۔ ڈاکٹر وحید قریشی کا شمار بھی ایسے ہی فرشتہ خصلت اساتذہ میں کیا جاتا ہے، وہ اُردو زبان و ادب کے نامور محقق، ممتاز تنقید نگار، مزاح نگار ، شاعر اور دانشور تھے۔ ان کا بچپن ننھیال میں گزرا، ان کے والدِ گرامی محکمہ پولیس میں آفیسر تھے۔
ڈاکٹر صاحب نے 1940 ء میں اسلامیہ ہائی اسکول بھاٹی گیٹ لاہور سے میٹرک کا امتحان پاس کیا جس کے بعد انہیں گورنمنٹ کالج لاہور میں داخلہ مل گیا ان کے اسی دور کے چند دوستوں میں جناب عنایت اللہ اور علامہ اقبالؒ کے فرزند ارجمند جاوید اقبال تھے۔ انہوں نے ایم اے تک کی تعلیم اسی کالج میں حاصل کی اور اپنے ذوق وشوق کے مطابق ایک ایم اے فارسی میں اور دوسرا ایم اے تاریخ کے مضمون میں کیا۔ جس کا انہوں نے بعد میں اپنی زندگی میں ادبی فائدہ اٹھاتے ہوئے تحقیق و تنقید پر بقول شہزاد احمد کے اس طرح کام کیا کہ ’’ جب وہ تنقید پر اُتر آتے تو پھر امان ملنی مشکل ہو جاتی اور مرزا غالب کی طرح دوست کے کلام کو دشمن کی نگاہ سے دیکھتے تھے۔ ‘‘
ڈاکٹر وحید قریشی جنہوں نے 1952 ء فارسی ادب میں پی ایچ ڈی کی اور 1962 ء میں اُردو میں ڈی لٹ کی ڈگری حاصل کی۔ اُس وقت ان کے مقالے کا عنوان غالبا ’’میر حسن اور ان کا زمانہ تھا‘‘۔ 150 مشاہیرِ ادب اس کتاب کے مصنف ملک مقبول احمد ہے جس میں ان کے تحریر کردہ مضمون سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ ’’انہوں نے علامہ عباس شوستری ایرانی سے فارسی سبقاََ سبقاََ پڑھی تھی اور انہیں ریسرچ کے لیے ایلفرڈ اسکالر شپ دیا گیا تھا جس کی اساس پر انہوں نے........
© Express News
visit website