فلسطین کے حق میں پہلی عالمی ادارہ جاتی آواز
[email protected]
کشمیر کا ذکر ہوا تو اقبال تڑپ اٹھے اور انھوں نے سوال کیا ع
ہے کہاں روز مکافات اے خدائے دیر گیر؟
فلسطین میں اسرائیل کی طرف سے ڈھائے جانے والے بدترین مظالم بلکہ نسل کشی کے بارے میں عالمی عدالت انصاف کا فیصلہ سامنے آیا تو یہ مصرع زبان پر بے ساختہ آ گیا۔ کشمیر میں عوام کے حق خود ارادی اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے بارے میں ایسا لگتا ہے کہ اقبال نے دل نکال کر کاغذ پر رکھ دیا ہے۔
ایسا لگتا ہے کہ کشمیر ہو یا فلسطین بلکہ دنیا میں جہاں کہیں بھی ظلم ہو، اقبال کا یہ ترانہ اسے صرف زبان نہیں دیتا بلکہ احتجاج کا جھنڈا بلند کرتا ہے۔ پہلے ایک نظر اس نظم پر
آج وہ کشمیر ہے محکوم و مجبور و فقیر
کل جسے اہل نظر کہتے تھے ایران صغیر
سینہ ٔ افلاک سے اٹھتی ہے آہ سوز ناک
مرد حق ہوتا ہے جب مرعوب سلطان و امیر
کہہ رہا ہے داستاں بیدردی ایام کی
کوہ کے دامن میں وہ غم خانہ دہقان پیر
آہ!یہ قوم نجیب و چرب دست و تر دماغ
ہے کہاں روز مکافات اے خدائے دیر گیر؟
اس حقیقت میں تو کوئی شبہ نہیں ہے کہ فلسطین میں تاریخ کی بدترین خون ریزی اور نسل کشی کے بارے میں عالمی عدالت انصاف کا فیصلہ اس اعتبار سے تو حوصلہ افزا ہے کہ عالمی سطح پر طاقت کے مراکز پر چھائی ہوئی بے حسی میں یہ امید کی کرن ہے۔ اس طرح کم از کم یہ تو ہوا کہ اسرائیل کی بہیمیت اور حیوانیت کے بارے میں قانون نے اپنا فیصلہ سنا دیا ہے۔ یوں اب یہ ممکن نہیں رہے گا کہ کوئی طاقت منھ بھر کر اسرائیل کی حمایت کر سکے۔
اسرائیل کے ظالمانہ طرز عمل کے نتیجے میں امریکی جامعات کے طلبہ کے غیرت مندانہ احتجاج اور باضمیر امریکی رائے عامہ کی مخالفت کے بعد اتنا تو ہوا کہ........
© Express News
visit website