ارتقاء کی مسافتیں
محسوس کچھ ایسا ہوتا ہے کہ اس ملک پر جیسے دو سوچوں کا تسلط ہو، دو الگ الگ نظریے ہیں۔ان دنوں سوچوں اور نظریات میں گھمسان کی جنگ ہو۔ یہ نظریے ہمیشہ ایک ساتھ چلے مگر کچھ ایسے کہ کبھی ایک نظریہ دوسرے پر حاوی ہوتا اور کبھی دوسرا نظریہ پہلے پر حاوی رہتا۔بس ایک ہی شخصیت تھی جس نے اس ملک کو بنایا باقی یا تو کہانیاں ہیں یا پھر فسانے۔
قائداعظم نے11 ستمبر کی تقریب میں پاکستان کا نظام دے دیا تھا مگر وہ بہت جلد ہی چل بسے، جناح کے جانے کے بعدپاکستان پر قبضے کا کام شروع ہو گیا ،وہ ملک جس کے بننے کا ذریعہ جمہوریت تھی، اسی جمہوریت کو بڑا بے آبرو کر کے نکا لا گیا اور مذہب کو بیچ میں لایا گیا۔یہاں سیکولر ازم کی تشریح لادینیت کی گئی بلکہ اردو لغت میں بھی سیکولرازم کی یہی تشریح کی گئی۔
آج 76 سال بعد یہ دنگل اپنے آخری راؤنڈ میں داخل ہونا چاہتا ہے۔ ہم بھٹو کو جنرل ضیاء الحق کے تناظر میں پرکھتے رہے ہم جیسے بہت سے لوگوں کے لیے بھٹو ہیرو تھے اور ضیاء الحق ولن مگر حقیقت یہ ہے کہ ضیاء الحق کا سیدھا ٹکراؤ جناح سے تھا۔جناح ایک سوچ اور ایک نظرئیے کا نام تھااور جنرل ضیاء الحق ایک الگ سوچ اور نظرئیے کا نا م ہے۔
اس بار کچھ معاملہ ایسا جڑا کہ وہ جہاد جو ہم نے امریکا کی آشیرواد سے لڑا اور جو بات ہمیں بھی پسند تھی وہ سوویت یونین کے ٹوٹنے کے بعد یہاں سے چلے گئے مگر ایک نئے طبقے نے یہاں جنم لیا، جو کل تک سا ئیکلوں اور اسکوٹروں پر سواری کرتے تھے آج وہ لینڈ کروزر پر سوار ہوتے ہیں۔بڑا آسان تھا یہاں پر مذہبی انتہا پرستی کے ہتھیار کا استعمال کرکے جمہوریت کی جڑوں کو کاٹنا۔جب براہِ راست شب........
© Express News
visit website