آپ کا ادارہ ضرورت مندوں کوقرض حسنہ فراہم کرتا ہے؟

جی نہیں، ہمارا ادارہ اپنے اسپتال اور تعلیمی اداروں کی حد تک مالی امداد یا بالکل مفت سہولیات فراہم کر سکتا ہے لیکن قرض حسنہ نہیں۔

دوسری جانب قدرے وقفے کے بعد فون کرنے والے نے جھجھکتے ہوئے بات جاری رکھی ؛ اچھا ! میں نے سوچا پوچھ لوں کہ شاید کوئی صورت بن سکے۔ در اصل بیٹی کا اگلے ہفتے پھر آپریشن ہے۔ آپریشن کے اخراجات تو فلاحی کینسر اسپتال ہی برداشت کر رہا ہے لیکن اس کے علاوہ بھی بہت سے اخراجات ہو جاتے ہیں۔ بیٹی کے علاج کے لیے سب اثاثے بیچ چکے ہیں۔ اب سمجھ نہیں آ رہی کہ کیا کروں۔

عبد الرشید جاننے والوں میں سے ہیں۔ ریٹیل سیکٹر میں ایک معروف برانڈ کے شاپ منیجر ہیں۔ پہلی بار تعارف اس سوال سے ہوا کہ آپ کی نظر میں کوئی پارٹ ٹائم جاب ہو تو بتائیے گا۔ تفصیلات کا علم ہوا تو کئی دن ذہن ماؤف رہا۔

کراچی سے اشرف باوانی ایک سینئیر کارپوریٹ ایگزیکٹیو ہیں ، چار ویلفیئر اداروں کے بورڈ پر ہیں۔ ہیلپ انٹرنیشنل ویلفیئر ٹرسٹ کا ایک واقعہ کچھ یوں سنایا؛ ایک انتہائی غریب گھرانے سے تھیلیسیمیا کی شکار ایک بچی زیر علاج تھی، صبح نو بجے اس کی اپوائنٹمنٹ طے تھی لیکن خلاف معمول وہ بچی بر وقت نہیں آئی۔ عملے نے انتظار کیا، اس دوران اوقات کار ختم ہونے کو تھے کہ بچی کی ماں بچی کو اٹھائے سینٹر میں داخل ہوئی ۔

عملے نے معذرت کرتے ہوئے کہا ؛صبح نو بجے کے بجائے ایک بجے آ رہی ہو ، عملہ کام ختم کرکے جانے کو ہے۔یہ سن کر خاتون نے اپنی بپتا سنائی ؛ کیا کرتی، جیب میں پھوٹی کوڑی نہ تھی، کرائے کی رقم کا بندوبست نہ ہوسکا، مجبوراً بچی کو اٹھائے پانچ چھ کلو میٹر پیدل چل کر آئی اس لیے دیر ہو گئی۔ یہ سن کر عملے کے دل بھی پسیج گئے۔

مہنگائی اور بے روزگاری نے سفید پوش اور نچلے طبقات کو اس قدرزیر بار کر دیا ہے کہ بیماری کی صورت میں ’ مرے کو مارے شاہ مدار ‘ والا معاملہ ہو جاتا ہے۔ اللہ معاف کرے اگر تھیلیسیمیا، ڈائیلسز وغیرہ سے واسطہ پڑ جائے تو خاندان بھر کی زندگی زیر و زبر ہو جاتی ہے۔اصولاً ریاست کو غریب اور لاچار لوگوں کا آسرا بننا چاہیے لیکن حکومت اور ریاستی ڈھانچے کے اپنے مسائل ہیں۔

ایسے میں قابل قدر ہیں وہ پبلک ویلفیئرادارے جو لوگوں کے دکھوں کا مداوا کرنے میں جتے ہوئے ہیں۔ سیلانی ٹرسٹ، ایدھی فاونڈیشن، الخدمت، اخوت، سندس فاونڈیشن، ریڈ اسکول سسٹم، الغزالی ایجوکیشن ٹرسٹ جیسے ادارے اپنے اپنے طور پر وسائل جمع کرکے ایسے لوگوں کے لیے علاج، تعلیم اور قدرتی آفات کی صورت میں مصروف عمل ہیں۔ اسی میدان میں چوہدری رحمت علی میموریل ٹرسٹ، ٹاون شپ لاہور بھی شامل ہے جو 38 سالوں سے خاموشی سے علاج معالجے اور تعلیم کے میدان میں مصروف عمل ہیں۔

چوہدری رحمت علی پاکستان کی تاریخ کے انتہائی منفردکردار ہیں۔ متحدہ بھارت میں جب زیادہ تر سیاسی جماعتیں ملکی وحدت کے اندر سیاسی بقا اور آزادی کے لیے راستہ بنانے کی تگ و دو میں تھیں تو تیس کی دہائی کے اوائل میں انھوں نے مسلمانوں کے لیے علیحدہ علاقائی خطوں پر مشتمل ملک کی تجویز دی۔ 1933 میں لکھے اپنے شہرہ آفاق کتابچے Now or Never میں پہلی بار انھوں نے نئے ممکنہ ملک کے لیے لفظ پاکستان استعمال کیا۔ یہ لفظ انھوں نے کیسے سوچا، اس کی توجیہہ ہم سب کو معلوم ہے۔انھوں نے اپنے تئیں پاکستان نیشنل موومنٹ نام کی ایک متحرک تنظیم بھی تشکیل دی۔ ان کے سیاسی نظریات مسلم لیگ سے مختلف تھے۔

تاہم 1940 کی قرارداد لاہور منظور ہونے پر گزشتہ روز پریس نے اس قرارداد کو پاکستان کے نام سے پکارا۔ گو مسلم لیگ نے اس وقت تک اس نام کو رسمی طور پر اپنایا نہیں تھا لیکن نام کی معنویت اور خوبصورتی نے جیسے آزادی کی تحریک کو ایک روح پرور چہرہ دے دیا۔ اس کے بعد چل سو چل۔ یہ الگ داستان ہے کہ اس نام کے خالق کے ساتھ بعد میں جو سلوک ہوا وہ یقیناً نامناسب تھا۔ ان کا کسمپرسی کے عالم میں برطانیہ میں ہی انتقال ہوا۔

ان کے ایک دوست ڈاکٹر ایس ایم کے واسطی جو لاہور کے مشہور چائلڈ اسپیشلسٹ اور میو اسپتال میں چلڈرن وارڈ کے بانیوں میں سے تھے، انھوں نے چند دوستوں کے ساتھ مل کر 1976 میں ان کے نام پر ٹرسٹ بنانے کی ٹھانی۔ جو پودا انھوں نے لگایا آج اس شجرِ سایہ دار کے تحت ایک 48 بیڈ کا اسپتال، ایک گرلز اسکول، ایک بوائز اسکول، ایک جونیئر اسکول، ایک مسجد اور اس سے ملحق مدرسہ قائم ہے۔

چوہدری رحمت علی ٹرسٹ اسپتال لاہور سے سالانہ 240,000 کے لگ بھگ افراد مستفید ہوتے ہیں، غریب اور مستحق افراد کا علاج مفت کیا جاتا ہے، 50 روپے کی علامتی پرچی پر OPD سہولت فراہم کی جاتی ہے ۔

اسپتال میں جنرل میڈیسن،گائنی و زچہ بچہ،جنرل سرجری،ای این ٹی، نیورالوجی، جلد،چیسٹ و ٹی بی، چلڈرن، چشم،ڈینٹل و ذیابیطس کے شعبہ جات کام کر رہے ہیں ، ڈائیگناسٹک کی سہولیات بھی موجود ہیں۔ٹرسٹ کے زیر اہتمام وسیع کیمپس پر بوائز ہائی اسکول، گرلز اسکول اور جونیئر اسکول میں طلباء و طالبات کی تعداد 2300 سے زائد ہے۔ ماہانہ فیس انتہائی کم ، ذہین و مستحق طلباء طالبات فیس میں خصوصی رعایت / اسکالرشپ جب کہ انتہائی ضرورت مند طلباء مفت تعلیم سے مستفید ہوتے ہیں۔جامعہ مسجد رحمت و دارالعلوم میں بچوں کو حفظِ قرآن،ناظرہ تجوید و درسِ نظامی کی مفت تعلیم جب کہ ان بچوں کے کھانے پینے،علاج اور رہائش کے اخراجات بھی ادارہ کے ذمے ہے۔

ٹرسٹ کے ماہانہ اخراجات ڈیڑھ کروڑ سے زائد ہیں جب کہ توسیع اور مزید سہولیات کے لیے عطیات اور مالی معاونت کا تخمینہ الگ ۔ جو احباب اس شجر سایہ دار کا سایہ مزید پھیلانے میں زکوۃٰ، عطیات و صدقات کے ذریعے سے شامل ہو سکیں، اس میں ان کی دنیا اور آخرت کی بھلائی بھی ہے اور حق داروں کا حق ادا ہونے کی صورت بھی ہے۔ عطیات و زکوۃ آن لائن جمع کرانے کے لیے تفصیلات:

https://chaudhryrahmatalitrust.com

Or Inter-bank fund transfers:Bank Islami Pakistan Limited Account Title: Ch. Rahmat Ali Memorial TrustBank Account: 201139351240201 (Branch Code 2011)IBAN NO: PK84BKIP0201139351240201

QOSHE - رحمت کا وسیلہ - خالد محمود رسول
menu_open
Columnists Actual . Favourites . Archive
We use cookies to provide some features and experiences in QOSHE

More information  .  Close
Aa Aa Aa
- A +

رحمت کا وسیلہ

7 0
16.03.2024

آپ کا ادارہ ضرورت مندوں کوقرض حسنہ فراہم کرتا ہے؟

جی نہیں، ہمارا ادارہ اپنے اسپتال اور تعلیمی اداروں کی حد تک مالی امداد یا بالکل مفت سہولیات فراہم کر سکتا ہے لیکن قرض حسنہ نہیں۔

دوسری جانب قدرے وقفے کے بعد فون کرنے والے نے جھجھکتے ہوئے بات جاری رکھی ؛ اچھا ! میں نے سوچا پوچھ لوں کہ شاید کوئی صورت بن سکے۔ در اصل بیٹی کا اگلے ہفتے پھر آپریشن ہے۔ آپریشن کے اخراجات تو فلاحی کینسر اسپتال ہی برداشت کر رہا ہے لیکن اس کے علاوہ بھی بہت سے اخراجات ہو جاتے ہیں۔ بیٹی کے علاج کے لیے سب اثاثے بیچ چکے ہیں۔ اب سمجھ نہیں آ رہی کہ کیا کروں۔

عبد الرشید جاننے والوں میں سے ہیں۔ ریٹیل سیکٹر میں ایک معروف برانڈ کے شاپ منیجر ہیں۔ پہلی بار تعارف اس سوال سے ہوا کہ آپ کی نظر میں کوئی پارٹ ٹائم جاب ہو تو بتائیے گا۔ تفصیلات کا علم ہوا تو کئی دن ذہن ماؤف رہا۔

کراچی سے اشرف باوانی ایک سینئیر کارپوریٹ ایگزیکٹیو ہیں ، چار ویلفیئر اداروں کے بورڈ پر ہیں۔ ہیلپ انٹرنیشنل ویلفیئر ٹرسٹ کا ایک واقعہ کچھ یوں سنایا؛ ایک انتہائی غریب گھرانے سے تھیلیسیمیا کی شکار ایک بچی زیر علاج تھی، صبح نو بجے اس کی اپوائنٹمنٹ طے تھی لیکن خلاف معمول وہ بچی بر وقت نہیں آئی۔ عملے نے انتظار کیا، اس دوران اوقات کار ختم ہونے کو تھے کہ بچی کی ماں بچی کو اٹھائے سینٹر میں داخل ہوئی ۔

عملے نے معذرت کرتے ہوئے کہا ؛صبح نو بجے کے بجائے ایک بجے آ........

© Express News


Get it on Google Play