جو جیتا وہی سکندر۔ محاورے کی حد تک تو یہی پڑھا اور سنا لیکن عملاً بہت کچھ اس کے برعکس دیکھا۔ میر تقی میر کے بقول شکست و فتح تو نصیب کی بات ہے لیکن اصل نکتہ یہی ہے دل ناتواں نے مقابلہ خوب کیا یا نہیں۔ کچھ مہم جو اس فارمولے پر عمل پیرا دیکھے کہ جو بڑھ کر اٹھا لے مینا اسی کا ہے۔

جیت کی سکندری اپنی جگہ لیکن اگر جیت کا دامن اپنی دریدگی کا خود اعلان ہو تو ایسی جیت گلے کا ہار بھی بنتے دیکھی۔ البتہ سیاست کو اس سے مستثنیٰ پایا۔

جس الیکشن کا انتظار تھا بالٓاخر اٹھ فروری کو وہ الیکشن منعقد ہو گیا۔ اس الیکشن سے پہلے کیا کچھ ہوا ! کیا کیا سیاسی داؤ پیج نہ آزمائے گئے اور کیا کیا محیر العقول قانونی کتر بیونت نہ ہوئی۔ تاہم جیسا تیسا بھی تھا، آٹھ فروری کو الیکشن منعقد ہو گیا۔

عین انتخاب کے دن حسب توقع انٹرنیٹ کی رسائی میں رخنہ اندازی ہوئی، لوگوں کو اپنے پولنگ اسٹیشن ڈھونڈنے، پولنگ اسٹیشن کا راستہ ڈھونڈنے اور احباب سے رابطہ رکھنے میں شدید دشواریوں کا سامنا کرنا پڑا۔

احتجاج ہوا تو لگا بندھا جواب تھا کہ سیکیورٹی کا معاملہ ہے، کیا کہہ سکتے ہیں! ایک گیت کی حد تک تو سنا تھا کہ” دل کا معاملہ ہے” لیکن ہماری سیکیورٹی کا معاملہ بھی دل کا سا ہے معلوم نہ تھا۔ تاہم عین ایسے مواقع پر انٹرنیٹ کی بندش اس امر کا واضح اشارہ دیتی ہے کہ یہ بندش بے سبب نہ تھی۔

انسان اپنے تجربات سے سیکھتا ہے۔جب فیصلہ ساز اپنی مجبوریوں اور ضرورتوں کی عینک سے منظر کو دیکھتے ہیں تو انھیں شاید یہی ایک آسان حل نظر اتا ہے کہ انٹرنیٹ بند کر دیا جائے۔

انٹرنیٹ رابطے کی ایک ضرورت تو ہے ہی لیکن اس کے علاوہ ملکی معیشت کے بہت سے سیکٹرز کے روزمرہ امور اور بیرونی دنیا کے ساتھ معاملات انٹرنیٹ کی موجودگی میں طے پاتے ہیں، جن بزرجمہروں نے یہ یک طرفہ فیصلہ کیا کہ انٹرنیٹ بند کر دیا جائے، انھیں ایک لمحے کے لیے بھی یہ احساس نہ ہوا کہ آن لائن ٹیکسیوں، آن لائن فوڈ بزنس، آن لائن ای کامرس اور آئی ٹی کے میدان میں ہمہ وقت گلوبل مارکیٹ سے تعلق اور سروس پر مامور کمپنیز پر زبردستی بلیک آؤٹ ٹھونس کر ان کے کاروبار اور کاروباری اعتماد کو کس قدر نقصان پہنچتا ہے!

چند روز قبل ایک آن لائن سیاسی جلسے کے موقع پر انٹرنیٹ بند کیا گیا، شنید ہے کہ آسٹریلیا کی ایک بہت بڑی کمپنی کے لیے پاکستانی کی ایک کال سینٹر کمپنی کو کانٹریکٹ سے ہاتھ دھونا پڑا۔ کیونکہ آسٹریلین کمپنی کو اس اچانک رخنہ اندازی سے کاروباری نقصان ہوا۔

مزید نقصان برداشت کرنے کے بجائے آسٹریلین کمپنی نے یہ بزنس کسی اور ملک میں شفٹ کرنے کا نوٹس دے دیا۔ سیکیورٹی کی مجبوریاں اپنی جگہ لیکن انٹرنیٹ صرف سیکیورٹی کا پائے تسمہ نہیں، بلکہ ملکی معیشت اور بیرون ملک ای کامرس کے رابطے کے لیے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے۔ انٹرنیٹ کی بندش سے بیرونی دنیا کو ملک کے انفرااسٹرکچر پر بے اعتمادی کا پیغام جاتا ہے۔ اندرون ملک ہزاروں لاکھوں لوگ جو ہر آن لائن رابطوں کی وجہ سے اپنے کام کاج نمٹاتے ہیں ان پر بھی یہ اچانک افتاد انھیں بدمزہ اور بددل کرتی ہے۔

ان انتخابات میں نوجوانوں کی بہت بڑی تعداد پہلی بار ووٹ ڈالنے کی اہل ہوئی۔ اس کے ساتھ ساتھ گزشتہ چند سالوں میں سوشل میڈیا کی لامحدود رسائی اور استعمال نے سیاسی جماعتوں اور ووٹرز کے درمیان ایک نئی طرح کا ابلاغی تعلق پیدا کیا۔بہت سے ماہرین اس طرف اشارہ کر رہے تھے کہ اس بار انتخابات میں اگر نوجوانوں کی اکثریت ووٹنگ کے لیے باہر نکلی تو بہت سے نتائج حیران کن ثابت ہو سکتے ہیں۔ عین الیکشن کے دن نوجوان ووٹرز کی بڑی تعداد نکلی اور اس کا حیران کن اثر انتخابی نتائج پر سب نے دیکھا۔

یوں تو وطن عزیز میں سب ادارے بالعموم انحطاط پذیر ہیں۔ مرکزی، صوبائی یا مقامی سطح پر وقت کے ساتھ ساتھ بالعموم انحطاط اور زوال سائے کی طرح ساتھ ساتھ ہے۔الیکشن کی تاریخ کا اعلان کرنا اور انتظامات الیکشن کمیشن کے ذمے ہے۔

انتخابات فیصلہ کن معرکہ ہونے کے ناطے عوام کی دلچسپی لازم ہے۔مین اسٹریم اور سوشل میڈیا کے لیے الیکشن ایک بہترین کاروباری موقع ہوتے ہیں۔ الیکشن سے کئی روز قبل تمام بڑے نیوز چینلز کے ہاں رنگین اور شاندار الیکشن ہیڈ کوارٹر یا الیکشن سیل بنا دیے گئے۔

آٹھ فروری سے دو دن قبل ہی 24 گھنٹے نشریات میں تجزیہ کار اپنے اپنے تبصروں کی گوہر افشانیاں کرنے لگے۔ایسے ایسے تجزیے اور اندازے سننے کو ملے کہ خدا کی پناہ! خواہش خبر تھی اور خیال تجزیہ۔ عوام شام ڈھلے ہی نتائج کے لیے ٹی وی اسکرینوں کے سامنے بیٹھ گئے۔ تاہم شام ڈھلے نتائج ترتیب دینے اور اعلان کرنے میں تیزی آنے کے بجائے سستی غالب آنا شروع ہو گئی۔

انٹرنیٹ کی بندش کا معاملہ شکوک کی دھند کو مزید گہرا کر گیا۔ پاکستان کی آبادی کا بیشتر حصہ بڑے شہروں اور قصبات پر مشتمل ہے، انٹرنیٹ کا رابطہ ہمہ وقت ایک ایک پل کی خبر رکھتا اور دیتا ہے۔ایسے میں کون مانے گا کہ ان شہروں اور قصبات سے رات دو بجے تک نتائج حاصل نہ ہوسکے۔

یوں اعلان کرنے کی یہ ڈیڈ لائن سستی اور سکتے کی نذر ہو گئی۔ جمعہ کا دن طلوع ہوا تو کیفیت یہ تھی کہ درجن بھر قومی اسمبلی کی نشستوں کے نتائج کا ہی باضابطہ اعلان ہو سکا۔ بقیہ نشستوں کے نتائج بعد میں دھیرے دھیرے سامنے لائے گئے۔ سوشل میڈیا پر انٹ شنٹ خبروں، دعوؤں اور سازشی تھیوریوں نے وہ طوفان مچایا کہ سجھائی نہیں پڑتا تھا کون سچ کہہ رہا ہے کون جھوٹ کہہ رہا ہے ؟کون سا الزام سچائی پر مبنی ہے اور کون سا الزام پروپیگنڈا؟

الیکشن کے روز بہت حد تک شفاف اور پرسکون ووٹنگ کے باوجود نتائج کی ورکنگ میں تاخیر نے الجھن پیدا کی۔ نئی حکومت کی پرواز ناہموار رہنے کا اندیشہ ہے، احتیاط کا تقاضا یہی ہے کہ پرواز کے آغاز پر بقول ائیر لائنز کی ہدایات۔ سیٹ بیلٹ باندھ لیجیے، پرواز اچانک ناہموار ہو سکتی ہے… ایک اور سفر پر خوش آمدید!

QOSHE - الیکشن کہانی - خالد محمود رسول
menu_open
Columnists Actual . Favourites . Archive
We use cookies to provide some features and experiences in QOSHE

More information  .  Close
Aa Aa Aa
- A +

الیکشن کہانی

12 9
10.02.2024

جو جیتا وہی سکندر۔ محاورے کی حد تک تو یہی پڑھا اور سنا لیکن عملاً بہت کچھ اس کے برعکس دیکھا۔ میر تقی میر کے بقول شکست و فتح تو نصیب کی بات ہے لیکن اصل نکتہ یہی ہے دل ناتواں نے مقابلہ خوب کیا یا نہیں۔ کچھ مہم جو اس فارمولے پر عمل پیرا دیکھے کہ جو بڑھ کر اٹھا لے مینا اسی کا ہے۔

جیت کی سکندری اپنی جگہ لیکن اگر جیت کا دامن اپنی دریدگی کا خود اعلان ہو تو ایسی جیت گلے کا ہار بھی بنتے دیکھی۔ البتہ سیاست کو اس سے مستثنیٰ پایا۔

جس الیکشن کا انتظار تھا بالٓاخر اٹھ فروری کو وہ الیکشن منعقد ہو گیا۔ اس الیکشن سے پہلے کیا کچھ ہوا ! کیا کیا سیاسی داؤ پیج نہ آزمائے گئے اور کیا کیا محیر العقول قانونی کتر بیونت نہ ہوئی۔ تاہم جیسا تیسا بھی تھا، آٹھ فروری کو الیکشن منعقد ہو گیا۔

عین انتخاب کے دن حسب توقع انٹرنیٹ کی رسائی میں رخنہ اندازی ہوئی، لوگوں کو اپنے پولنگ اسٹیشن ڈھونڈنے، پولنگ اسٹیشن کا راستہ ڈھونڈنے اور احباب سے رابطہ رکھنے میں شدید دشواریوں کا سامنا کرنا پڑا۔

احتجاج ہوا تو لگا بندھا جواب تھا کہ سیکیورٹی کا معاملہ ہے، کیا کہہ سکتے ہیں! ایک گیت کی حد تک تو سنا تھا کہ” دل کا معاملہ ہے” لیکن ہماری سیکیورٹی کا معاملہ بھی دل کا سا ہے معلوم نہ تھا۔ تاہم عین ایسے مواقع پر انٹرنیٹ کی بندش اس امر کا واضح اشارہ دیتی ہے کہ یہ بندش بے سبب نہ تھی۔

انسان اپنے تجربات سے سیکھتا ہے۔جب فیصلہ ساز اپنی مجبوریوں........

© Express News


Get it on Google Play