آئینی ترمیم _ پارلیمنٹ کی جارحانہ دفاعی جَست
چھبیسویں آئینی ترمیم کی اُونٹنی کم وبیش دوماہ تڑپنے پھڑکنے، پہلو بدلنے، بلبلانے اور دردِزہ جیسے کرب سے گذرنے کے بعد بالآخر، حکومتی اتحاد کے موافق کروٹ بیٹھ گئی ہے۔ بَرحق زمینی حقیقت اب یہ ہے کہ چھبیسویں ترمیم آئین کے حُجلہئِ عروسی میں آ بیٹھی ہے۔ اِس ترمیم کے ذریعے کی گئی تمام تبدیلیاں پاکستان کے آئین کا حصہ بن چکی ہیں۔ اِن تبدیلیوں کا درجہ ومقام اَب وہی ہے جو 1973ء کے دستور میں درج شقوں کا ہے۔ پارلیمنٹ نے یہ استحقاق آئین کے آرٹیکل 239 (6) کے تحت استعمال کیا ہے جو کہتا ہے:
”For the removal of doubt, it is hereby declared that there is no limitation whatever on the power of the Majlis-e-Shoora (Parliament) to amend any of the provisions of the constitution“
انٹرنیشنل کمیشن آف جیورسٹ نے 26ویں آئینی ترمیم کو عدلیہ کی آزادی کیلئے دھچکا قرار دیدیا(شک وشبہ کے ازالہ کے لئے بذریعہ ہذا قرار دیاجاتا ہے کہ دستور کے احکام میں سے کسی میں بھی ترمیم کرنے کے لئے مجلسِ شوری (پارلیمنٹ) کے اختیار پر کسی بھی قسم کی کوئی پابندی نہیں ہے)
سو کوئی کچھ بھی کہتا رہے، یہ پارلیمنٹ کا اختیار کُلّی ہے کہ وہ آئین میں پہلے سے موجود آرٹیکلز میں کسی بھی نوع کی تبدیلی کرے۔ شَرط صرف ایک ہی ہے کہ پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں میں اُسے کل ارکان کی دوتہائی اکثریت کی حمایت حاصل ہو۔ خود کو ہر آئینی قدغن سے ماوریٰ اور لامحدود اختیارات کی حامل سمجھنے والی عدلیہ جس بے رحمی کے ساتھ پارلیمنٹ کی منظور کردہ ترامیم کو آپریشن تھیٹر کے ”تختہئِ مشق“ پر ڈال کر نشتر زنی شروع کردیتی ہے، اُس کی بھی آئین ہرگز اجازت نہیں دیتا۔ ججوں کی تقرری کے اختیار کو پارلیمنٹ کے کردار سے مکمل طورپر آزاد کرنے اور خود اپنے ہاتھ میں لینے کے لئے جسٹس افتخار چوہدری نے اٹھارھویں ترمیم کو کٹہرے میں لاکھڑا کیا تھا حالانکہ آئین کی شق 239 (5) قرار دیتی ہے کہ
تعلیمی اداروں میں طالبات کے ساتھ ناخوشگوار واقعات, ایف آئی اے........© Daily Pakistan (Urdu)
visit website