نجکاری:کیا ہمارے مسائل حل ہو سکیں گے؟
ہم نجکاری پالیسی کے تحت اپنے قومی اثاثے فروخت کرتے چلے جا رہے ہیں یہ پالیسی90ء کی دہائی میں اشتراکی ریاست کے15ٹکڑوں میں تقسیم ہو کر بکھر جانے کے بعد عالمی زری اداروں کے احکامات کے مطابق اختیار کی گئی تھی،اُس وقت پاکستان میں دو بڑی سیاسی جماعتیں تھیں، مسلم لیگ اور پیپلزپارٹی۔مسلم لیگ کاروباری طبقات کی نمائندگی کرتی تھی،محمد نواز شریف جیسے کامیاب سرمایہ کار و سرمایہ دار اس پارٹی کے رہنما تھے۔ مسلم لیگ کیونکہ سرمایہ دارانہ نظم معاشرت و معیشت کے تحت سیاست میں آئی تھی اس لئے وہ عالمی نظام سیاست و معیشت سے ہم آہنگ پالیسیوں کی پرچارک تھی یہی وجہ ہے کہ نواز شریف تین دفعہ وزارتِ عظمیٰ کے منصب جلیلہ پر فائز ہوئے اور آج بھی ان کی جماعت مرکز اور پنجاب میں برسر اقتدار ہے جبکہ پیپلزپارٹی بحیثیت جماعت سرمایہ دارانہ نظام کی مخالفت کے بل بوتے پر ابھری۔”سوشلزم کو ہماری معیشت“ قرار دے کر عامتہ الناس کی ہمدردیاں حاصل کیں اور برسر اقتدار آتے ہی نجی املاک کو قومیانے کی پالیسی پر عملدرآمد کر ڈالا۔ ایوبی دور (1958-69ء) کے دوران قومی معیشت نے تعمیر و ترقی کے جو ریکارڈ قائم کئے تھے وہ قومیانے کی پالیسی نے ملیا میٹ کر دیئے۔ عام آدمی کو روٹی کپڑا اور مکان تو کیا ملنا تھا جو مل رہا تھا وہ بھی چھن گیا۔ پھر ہم نے دیکھا کہ1977ء کی تحریک میں ایسے ہی عناصر نے مل جل کر بھٹو حکومت کے خلاف تحریک میں بنیادی کردار ادا کیا اور جولائی77ء میں ملک جنرل ضیاء الحق کے مارشل لاء کا اسیر ہو گیا۔پیپلزپارٹی آج بھی نجکاری کے خلاف اور مزدوروں اور کارکنان کے حقوق کی علمبردار ہے لیکن مسلم لیگ عالمی سرمایہ دارانہ نظام کی حامی اور اس کی پالیسیوں پر عمل پیرا نظر آتی ہے۔پاکستان انٹرنیشنل ایئر لائنز کی آج ہونے والی نجکاری، مسلم لیگ کی اسی پالیسی کا تسلسل ہے۔مسلم لیگ اس سے پہلے بھی اپنے ادوارِ حکومت میں قومی اثاثوں کی........





















Toi Staff
Sabine Sterk
Gideon Levy
Penny S. Tee
Waka Ikeda
Grant Arthur Gochin
Daniel Orenstein
Beth Kuhel