ٹینشن اور ڈپریشن کی انڈسٹری
برسوں پہلے ایک پنجابی فلم میں اداکار ننھا کا ایک تکیہ کلام تھا ”اوئے ٹینشن ای کوئی نئیں“۔ وہ ہر مشکل صورتحال کو یہ جملہ کہہ کر اُڑا دیتا تھا، مگر آج اگر ہم اپنے اردگرد بلکہ خود اپنے آپ کو دیکھیں تو ہمیں ہر طرف ٹینشن ہی ٹینشن نظر آتی ہے۔ ہم ہارڈ اسٹیٹ کی باتیں تو کر رہے ہیں حالانکہ ہمارا معاشرہ انتہائی بے لچک اور سخت ہو چکا ہے۔ دنیا میں انسانی سکون کو بہت اہمیت دی جاتی ہے،لیکن ہمارے ہاں حکومتی ا دارے ہوں یا افراد ہر وقت اس کوشش میں رہتے ہیں عوام کا سکون کیسے برباد کرنا ہے۔ ایک فلم میں اداکارہ ہر بات پر یہ ڈائیلاگ بولتی تھی،”کوئی ایک مصیبت اے“ یہاں بھی ہر طرف مصیبت ہی مصیبت نظر آتی ہے،گھر ایک سکون کی جگہ ہوتی تھی،اب گھروں میں پریشر ککر جیسا ماحول ہے، محبت اور یگانگت کے رشتے ناپید ہوتے جا رہے ہیں ہم سے پہلی نسل نے یعنی ہمارے والدین نے ڈپریشن کا لفظ تک نہیں سنا تھا،روکھی سوکھی کھا کے اپنی حد میں رہ کر زندگی گزارنے،والدین کا فرض ہوتا تھا گھر میں امن و سکون کی فضاء برقرار رہے۔ بچوں کی شادیوں کے بعد ساس بننے والی مائیں اور بیاہ کر آنے والی لڑکیاں اس خبط میں مبتلا نہیں ہوتی تھیں کہ ایک دوسرے کو نیچا دکھائیں۔آج گھر گھر یہ تماشا لگا ہوا ہے کہ ساس بہو کے جھگڑے گھروں کو تندور بنائے ہوئے ہیں، بات یہاں تک پہنچ جاتی ہے کہ بہو کو زندہ جلا دیا جاتا ہے یا پھر اس فضاء سے تنگ آ کر کوئی نوجوان خود کشی کر لیتا ہے یہ کیسی انانیت ہمارے رگ وپے میں سما گئی ہے جو ہمیں چین سے بیٹھنے ہی نہیں دیتی،خود کو بھی پریشان رکھتے ہیں اور دوسروں کو پریشان کرنے کا کوئی موقع بھی ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔یہ گھر سے شروع ہونے والی ٹینشن دفتروں، دکانوں،بازاروں،گلی........





















Toi Staff
Penny S. Tee
Sabine Sterk
Gideon Levy
John Nosta
Mark Travers Ph.d
Gilles Touboul
Daniel Orenstein