menu_open Columnists
We use cookies to provide some features and experiences in QOSHE

More information  .  Close

حفیظ اللہ نیازی

24 4
yesterday

کل قائداعظم کا یومِ پیدائش تھا۔ ایمان، اتحاد، تنظیم، مذہبی رواداری، سیاسی یگانگت اور قومی ہم آہنگی سے متعلق عظیم قائد کے افکار و نظریات، بحیثیت ریاست اور قوم ترک کئے دہائیاں بیت چکیں۔ قومی میڈیا پر عظیم قائد کا یومِ پیدائش منانا محض ایک رسمی فریضہ، طوعاً و کرہاً اتمامِ حُجت ہی سمجھیں ۔ زندہ قومیں اپنے محسنوں کے دن تقاریر و تقریبات انکے افکار و نظریات کو ریاستی پالیسی اور اجتماعی معاشرتی رویّوں میں ڈھال کر مناتی ہیں۔ جبکہ مردہ قوموں کیلئے انکا اندرونی احساسِ جرم بجائے فخر کے بوجھ بن جاتا ہے ۔ سوال یہ نہیں کہ ہم یہ دن کیسے منا رہے ہیں، سوال یہ ہے کہ کیا ہم واقعی اس دن کا بوجھ اٹھانے کے اہل بھی رہ گئے ہیں ؟ قائداعظم کا خواب ریاست میں ایک نظریاتی جمہوری مستحکم سیاسی نظام کا نفاذ تھا ، آج کوسوں دور ہیں ۔ سیاسی افراط و تفریط کی دلدل میں دھنسی مملکت ، میدانِ جنگ کا منظر پیش کر رہی ہے ۔ ریاست اور مقبولیت ایک دوسرے کیخلاف صف آرا ہیں ۔ وطن عزیز میں سیاسی عدم استحکام کا ہیجان برپا ہے ۔ دونوں فریق جذبہ ایمانی اور خداوندی تائید کے دعویدار ، ایک دوسرے کو ملک دشمن کے القابات سے نواز رہے ہیں ۔

14 اگست 2023 کو نگران وزیراعظم کی تقریب حلف وفاداری میں آرمی چیف جنرل عاصم منیر سے جناب مجیب الرحمان شامی کی معیت میں چند منٹ کا آمنا سامنا ہوا ۔ چیف صاحب ! مخاطب تھے ، " شامی صاحب ! پاکستان کا مثبت امیج اُبھاریں ، پاکستان بہت ترقی کرنے کو ہے "۔ 18 اگست 2023 کو میں نے " چیف صاحب ، مثبت سوچ ، خوشحال پاکستان" کالم لکھا، پہلا پیراگراف دوبارہ حاضر ہے … ، ’’کیا خوشحال پاکستان ، سیاسی استحکام کے بغیر ممکن ہے ؟ اگرچہ تاریخ میں ایسا کوئی سبق موجود نہیں، نامساعد حالات میں مثبت سوچ نعمت ِ غیر مترقبہ ہے ۔ آرمی چیف جنرل عاصم منیر سے آمنا سامنا ہوا تو چیف صاحب نے شامی صاحب کو مثبت رویوں کو اپنانے اور انکی ترویج کی........

© Daily Jang