menu_open Columnists
We use cookies to provide some features and experiences in QOSHE

More information  .  Close

شاہد حسین بخاری

12 0
previous day

ایسا معلوم ہوتا ہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے آٹھ جنگیں رکوانے کی صورت میں لاکھوں بے گناہ انسانی جانوں کا زیاں روکنے کے دعوے ، غزہ کی پٹی اور دریائے اردن کے مغربی کنارے پر رہنے والے فلسطینیوں کے تحفظ جان ومال اور انسانی حقوق کی پاسداری یقینی بنانے کے عزائم ان قوتوںکو پسند نہیں آئے جو زمین پر فساد پھیلانے ، انسانی حقوق پامال کرنے اور خون خرابے میں اپنا مفاد دیکھتی ہیں۔ آسٹریلیا کے شہر سڈنی کے ساحلی مقام پر اپنا مذہبی تہوار ’’حنوکا‘‘ منانےکیلئے جمع ہونیوالےراسخ العقیدہ یہودیوں کو اتوار14دسمبر کی شام دہشت گردی کا نشانہ بنانے کے منصوبہ سازوں نے بڑی باریک بینی سے اس واردات کا نقشہ تیار کیا۔’’ہاردی یہود‘‘ کہلانےوالے جس گروپ کو نشانہ بنایاگیا اسکے زیادہ تر لوگ مذہبی عبادات پر زور دیتے اور سیاست سے الگ تھلگ رہتے ہیں مگر غزہ اور دریائے اردن کے مغربی کنارے پر رہنے والے فلسطینیوں پر صہیونیوں کے ظالمانہ افعال کیخلاف دنیا بھر میں کئے گئے مظاہروں میں اس سے تعلق رکھنے والے افرادشریک ہوتے رہے ہیں۔ مذکورہ گروپ یا فرقے کے لوگوں پر دہشت گردانہ حملے کیلئے مسلمان باپ ساجد اکرم اور مسلمان بیٹے نوید اکرم کا بطور ہتھیار انتخاب اس لئے کیا گیا کہ ایک طرف یہ تاثر دیا جائے کہ مسلمان یہودیوں سے نفرت کرتے ہیں، دوسری طرف فلسطینی مسلمانوں سے یکجہتی کا اظہار کرنیوالوں کو بدظن کرنے کی گنجائش نکالی گئی۔ یوں کشیدگی میں اپنا مفاد دیکھنے والے عناصر کوصدر ٹرمپ کی امن کوششوں کیخلاف رائے عامہ ہموار کرنے کا ایک راستہ فراہم کیا گیا ہے۔ اصل حقیقت، جسکی تاریخ سے گواہی ملتی ہے ،یہ ہے کہ مسلمان اپنے دین کی تعلیمات کے بموجب غیر مسلموں سے اچھے تعلقات اور حسن سلوک کو ہمیشہ اہمیت دیتے رہے ہیں۔ یہودیوں پر جب ہٹلر کے مظالم کے باعث کڑا وقت آیا تھا تو مسلمانوں نے ہی آگے بڑھ کر انہیں گلے لگایا تھا ۔ یہ بات بھی غور طلب ہے کہ14 دسمبر کی رات جائے وقوعہ پر جو کار کھڑی ملی اس میں دیسی ساخت کے دوبم بھی موجود تھے جسکا مطلب یہ ہے کہ حملہ آور باپ بیٹے یہ امید رکھتے تھے کہ ساحل سمندر پر دئیے جلانے کے اس تہوار کے موقع پر جمع........

© Daily Jang