امر جلیل
میں آپ کو صدیوں پرانی بات نہیں بتا رہا۔ آج بھی یخ ٹھنڈے ممالک کے لوگ جانوروں کی کھال سے بنا ہوا لباس پہنتے ہیں۔ جن جانوروں کی کھال سے بنا ہوا لباس لوگ پہننا پسند کرتے ہیں، وہ جانور ان کے اپنے ممالک کے ہوتے ہیں۔ اس نوعیت کے جانور ان کے اپنے ممالک میں پیدا ہوتے ہیں۔ کھیل، کود کر بڑے ہوتے ہیں۔ اپنے آباؤ اجداد کی طرح خود بچے جنتے ہیں۔ بچوں کی پرورش کرتے ہیں۔ ان کو جوان ہوتا ہوا دیکھتے ہیں۔ اپنے بچوں کو شکار ہوتا ہوا دیکھتے ہیں۔ ان کی تکہ بوٹی بنتے ہوئے دیکھتے ہیں۔ ان کی اتری ہوئی کھال سے لباس بنتے ہوئے دیکھتے ہیں۔ پرانے دور میں کھانے والے بغیر پکائے ہوئے کچی تکہ بوٹی کھا جاتے تھے۔ جب سے مرچ مسالے ایجاد ہوئے، لوگوں نے تکہ بوٹی آگ پر پکانے کے بعد کھانی شروع کی۔ اسی طرح جانوروں کی اتاری ہوئی کھال دھونے اور صاف کرنے کے بعد مارکیٹ میں آنے لگی۔ کھالوں سے تب کے دور حاضر کے فیشن کے مطابق لباس بنانے لگے۔
کھالوں کا بیوپار بڑھ جانے کے بعد کھالیں بیچنے والوں نے دکان اور دکانوں سے مارکیٹ سجا لیے۔ ہر نوعیت کے جانور کی دھلی اور صاف ستھری کھالیں بکنے لگیں۔ بڑھتے ہوئے شعور نے معاشرے کو نئی جہتیں دیں۔ لوگ ایک دوسرے کو پہنی ہوئی کھال کے لباس سے پہچاننے لگے۔ شیر کی کھال پہننے والوں کو عزت سے دیکھا جانے لگا۔ شیر کے بعد گینڈے اور ہاتھی کی کھال پہننے والوں کو بھی معاشرے میں عزت ملنے لگی۔ یاد رہے کہ گینڈا اور ہاتھی جسامت اور اپنے بل بوتے پر شیر کو نقصان پہنچا سکتے ہیں۔ اس لیے دنیا بھر کے شیر بھول کر بھی گینڈے اور ہاتھی سے پنگا نہیں لیتے۔ تاریخ کے اوراق میں کئی........





















Toi Staff
Sabine Sterk
Penny S. Tee
Gideon Levy
Waka Ikeda
Grant Arthur Gochin