محمد بلال غوری
خان آف قلات کی سرکشی سے متعلق یہ سوال بہت معنی خیز انداز میں اُٹھایا جاتا ہے کہ میر احمد یار خان نے مارچ 1948ء میں اچانک پاکستان سے الحاق کی دستاویز پر دستخط کیوں کردیئے ؟کیا انہیں ریاستی جبر کے ذریعے ایسا کرنے کو کہا گیا؟مگرتاریخی حقائق سے معلوم ہوتا ہے کہ حقیقی اسباب کچھ اور تھے ۔دراصل خان آف قلات کی پاکستان کیخلاف مہم جوئی کوابتدا میںتاج برطانیہ کی پشت پناہی اور اشیر باد حاصل تھی۔برطانیہ تزویراتی مقاصد کے پیش نظر قلات میںاپنا دفاعی اڈہ بنانے کے منصوبے پر کام کررہا تھا لیکن جب یہ منصوبہ ترک کردیا گیا اور خان آف قلات کی سرپرستی سے ہاتھ کھینچ لیا گیا تو میر احمد یار خان کے پاس پاکستان سے الحاق کے سوا کوئی چارہ کار نہ رہا۔برطانوی تھنک ٹینک ’’فارن پالیسی سینٹر‘‘جو 1998ء میں وزیراعظم ٹونی بلیئر کے ساتھ لانچ کیا گیا 2006ء میں سامنے آنیوالی اسکی رپورٹ Balochis of Pakistan: On the margins of history میں خفیہ دستاویزات کی روشنی میںخوفناک انکشافات کئے گئے ۔رپورٹ کے مطابق شروع میں برطانیہ کا ارادہ تھا کہ آزاد بلوچستان کو اس خطے میں اپنی سرگرمیوں کیلئےبطور بیس استعمال کیا جائے گا۔میجر جنرل RC Moneyجو ہندوستان میں اسٹرٹیجک پلاننگ کے انچار ج تھے انہوںنے 1944ء میں جنگ عظیم کے بعد کے منظرنامے سے متعلق ایک رپورٹ تیار کی جس میں کہا گیا کہ اگرآخر کار انتقال اقتدار کی نوبت آجائے تو ایسی صورت میں خلیج فارس کے دفاع کیلئے بلوچستان کو ایک فوجی اڈے کے طور پر استعما ل کیا جاسکتا ہے۔فارن پالیسی سینٹر کی رپورٹ کے مطابق 1946ء میں ہندوستان کو تقسیم کرنے کا فیصلہ ہوا تو برطانوی حکام اس نتیجے پر پہنچے کہ کمزور بلوچستان میں فوجی اڈا بنانے کا کیا فائدہ ،ایسا ملٹری بیس تو پاکستان میں بھی ممکن ہے لہٰذا سیکریٹری آف اسٹیٹ لارڈ Listowellنے ستمبر 1947ء میں لارڈ ماؤنٹ بیٹن کو نصیحت کی کہ ریاست قلات کی جغرافیائی اہمیت کے پیش نظر اسکا آزاد ہونا بہت خطرناک ہوگا۔لہٰذا پاکستان میں تعینات برطانوی ہائی کمشنر کے ذریعے حکومت پاکستان کو کہا گیا کہ قلات کے ساتھ ایسا کوئی معاہدہ نہ کیا جائے جسکے تحت ریاست قلات کو ایک علیحدہ ملک کی حیثیت حاصل ہوجائے۔فارن پالیسی سینٹر کی رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ برطانوی حکام ایران میں قائم ہونیوالی وزیراعظم مصدق کی........





















Toi Staff
Sabine Sterk
Penny S. Tee
Gideon Levy
Waka Ikeda
Grant Arthur Gochin