menu_open
Columnists Actual . Favourites . Archive
We use cookies to provide some features and experiences in QOSHE

More information  .  Close
Aa Aa Aa
- A +

محمد بلال غوری

49 17
29.08.2024

’’میرا ایمان ہے کہ پنجاب نے پنجابیت اختیار نہ کی تووہ پاکستان کو بھی لے ڈوبے گا‘‘۔

پنجاب کے سابق وزیراعلیٰ حنیف رامے کا یہ جملہ بلوچستان کے علاقے موسیٰ خیل میں بلوچ دہشتگردوں کی جانب سے پنجابی مزدوروں کو چن کر قتل کئے جانے پر یاد آیا۔وہ پہلے اور آخری دانشور ہیں جنہوں نے ’’پنجاب کا مقدمہ‘‘ لڑنے کی کوشش کی۔ان کی یہ تصنیف 1985ء میں پہلی بار شائع ہوئی تو ’’پانچ کروڑ بے زبان پنجابی عوام‘‘ کے نام انتساب کے عنوان سے انہوں نے لکھا ’’اس معذرت کے ساتھ کہ میں نے یہ کتاب پنجابی میں نہیں لکھی ۔مگر شاید ’پنجاب کا مقدمہ‘مجھے اردو میں اسلئے پیش کرنا پڑا کہ پڑھے لکھے پنجابیوں نے پنجابی کوچھوڑ دیا ہے۔‘‘

اب 39برس بعد پنجاب کے باسیوں کی تعداد بڑھ کر 12کروڑ ہوچکی ہے اور ان میں سے کم ازکم 7کروڑ مجھ جیسے وہ غیر پنجابی ہیں جن کے آبائو اجداد پاکستان بننے سے پہلے یا بعد میں یہاں آکر آباد ہوئے۔ غوری، ابدالی اور مغل نہ جانے کتنے ہی فاتحین نے پنجاب پر یلغار کی، شیر شاہ سوری نے تو لاہور کو تباہ و برباد کرنے کی خواہش کا برملا اظہار کیا مگر فراخ دل پنجابیوں نے اپنے ہاںکسی قسم کے عناد، بغض، کینہ یا تعصب کو پروان نہیں چڑھنے دیا۔ سب کو خوش آمدید کہا۔یہاں تک کہ دیگر صوبوں اور قوموں سے تعلق رکھنے والے افراد نے یہاں آکر کاروباری معاملات پر اپنی گرفت مضبوط کر لی مگر کبھی کسی پنجابی نے یہ گلہ نہیں کیا کہ پشتون، سندھی یا بلوچ ہمارے وسائل پر قابض ہوگئے ہیں ،انہیں یہاں سے نکالا جائے ،انہیں یہاں زمینیں خریدنے اور کاروبار کرنے سے روکا جائے ۔یہاں نہ کوئی قوم پرست جماعت ہے نہ قوم پرست رہنما۔ سندھ ،بلوچستان اور خیبر پختونخوا کے لوگ اپنی انفرادیت برقرار رکھنا چاہتے ہیں، اپنی تہذیب و ثقافت اور زبانوں سے جڑے رہنے پر اصرار کرتے ہیں اور اس میں کوئی قباحت نہیں مگر پنجاب کے لوگ پاکستانیت کے رنگ میں رنگے جانے کو ترجیح دیتے ہیں۔ یہ وہ........

© Daily Jang


Get it on Google Play