menu_open
Columnists Actual . Favourites . Archive
We use cookies to provide some features and experiences in QOSHE

More information  .  Close
Aa Aa Aa
- A +

الطاف حسن قریشی

19 14
12.07.2024

بجٹ آ گیا اور نافذ بھی ہو گیا ہے۔ اہلِ اقتدار کا دعویٰ ہے کہ اُنہوں نے پاکستان کو ڈیفالٹ ہونے سے بچا لیا اور اِنتہائی مشکل حالات میں ایک عوام دوست بجٹ دیا ہے۔ لوگوں کے اندر پھیلا ہوا اِضطراب اور اِشتعال اُن کے دعوے کا منہ چڑا رَہا ہے۔ دراصل ہمارے حکمران مختلف حیلے بہانوں سے بجٹ سازی کے معروف طریقوں سے پہلوتہی کرتے رہےجو حالات میں ضرورت سے زیادہ محاذآرائی کے باعث بنے ہیں۔ اِسی طرح بجٹ کا دامن تارتار کرنے پر تُلے ہوئے فعال عناصر بھی اُن اصولوں سے انحراف کر رہے ہیں جو دنیا بھر میں بجٹ کی بخیہ گری کیلئے اختیار کیے جاتے ہیں۔ عام طور پر اِس کے اندر پائی جانے والی خرابیوں کی نشان دہی کے ساتھ ساتھ متبادل تجاویز بھی پیش کی جاتی ہیں۔ ہم اِس وقت جو منظر دیکھ رہے ہیں، اُس میں ایک بےہنگم جذباتیت کا غلبہ نظر آتا ہے۔ ہم سب اِس تلخ حقیقت سے واقف ہیں کہ پاکستان کا بال بال قرضوں میں جکڑا ہوا ہے اور بجٹ بنانے میں آئی ایم ایف کو غیرمعمولی اہمیت حاصل ہے، چنانچہ مناسب یہی معلوم ہوتا ہے کہ پاکستان کے معاشی ماہرین اور سیاسی دانش ور سر جوڑ کر بیٹھیں اور آئی ایم ایف کے مطالبات پورے کرنے کیلئے ایسی تدابیر اختیار کریں جن سے عوام پر ٹیکسوں کا بھاری بوجھ بھی نہ پڑے اور مالی وسائل کا رُخ امیروں کے بجائے غریبوں کی طرف ہو جائے۔ ہمیں یہ کام سنجیدگی سے سرانجام پاتا ہوا نظر نہیں آ رہا۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ جماعتِ اسلامی جیسی باشعور، سنجیدہ اَور قانون کی پابند منظم جماعت بھی اپنے آپ کو اِحتجاج اور دَھرنوں کی سیاست کی نذر کرتی جا رہی ہے۔ وہ ہمیشہ متبادل لائحہ عمل اور اِصلاحِ احوال کی تجاویز دیتی آئی ہے، اُس کا اضطراب تاہم ایک حد تک فطری معلوم ہوتا ہے، کیونکہ بجلی کے بِل عوام کیلئے موت کے پروانے بنتے جا رہے ہیں۔مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ ماضیٔ بعید میں بجٹ آنے سے پہلے مختلف اداروں اور تنظیموں کی طرف سے........

© Daily Jang


Get it on Google Play