کشور ناہید
ہم اپنی زندگی میں ضیاالحق کی کن کن ستم ظریفیوں پر نسل در نسل روتے اور ایک دوسرے کو غدار کہتے رہیں گے۔ سب سے بڑی غلطی تو یہ تھی کہ نصاب میں تاریخ پڑھانا، فضول سمجھا گیا اور اسلامیات پڑھانا لازمی قرار دیا گیا۔ ہماری نسل جس نے بتیس سال تک روز حکومتیں بدلتی اور اسکولوں میں روز یہ نقشہ بنانا کہ آج کس کی حکومت ہے،دیکھا۔ خود کو مطعون کرتے، ایوب خان کے دور حکومت اور مارشل لا کے دوران ماسٹرز بھی کیا اور نوکری کرتے ہوئے اپنے دو بچے، سقوط مشرقی پاکستان سے پہلے پیدا کیے اور بچے بڑے ہوتے ہوئے ماں باپ اور دوستوںکی ہر شام سیاسی گفتگو کرتے سن کر سمجھنےلگے کہ اب روز رات کو بلیک آئوٹ کیوں ہوتا ہے اور جب 16اگست کی شام 5بجے کی خبریں سنتے، گھر میں موجود منو بھائی، شفقت تنویر مرزا، زاہد ڈار اور ہم دونوں دھاڑیں مار کر رونے لگے تو بچے بھی گھبراکر بار بار پوچھتے رہے کہ ہوا کیا ہے۔ خبر صرف ایک منٹ کی اور آخری خبریں ’’پاکستان کی فوجوں نے ہتھیار باہمی معاہدے کے تحت ڈال دیئے ہیں۔‘‘
گھر کے باہر روتے ہوئے نکلے تو ٹرکوں میں بیٹھے فوجیوں کو بھی روتا دیکھ کر ہم سب کی چیخیں نکل گئیں۔ مال روڈ پر لوگ کھڑے گو گو آئس کریم کھا رہے تھے۔ (میں نے یہ ساری تفصیل چالیس سال پہلے اپنی کتاب بری عورت کی کتھا میں لکھ دی ہے)۔ میری ملاقات سقوط سے پہلے لاہور میں حسینہ واجد سے ہوئی تھی۔ ہم نے بہت دوستوں کی طرح باتیں کیں۔ سقوط کے کوئی دو سال بعد میں ایشین پوئٹری فیسٹیول میں بنگلہ دیش گئی، پھر حسینہ سے ملاقات ہوئی۔ میں نے بہت دھیمے انداز میں حسینہ سے پوچھا ’’کہ آپ مجھے دھان منڈی والا گھر دکھائیں گی جہاں شیخ صاحب کو گولیاں لگی تھیں‘‘۔ یہ سن کر وہ کچھ دیر خاموش رہیں۔ پھر کہا ’’چلو اٹھو‘‘۔ گھر میں داخل ہوتے ہی سامنے اوپر کو........
© Daily Jang
visit website