menu_open
Columnists Actual . Favourites . Archive
We use cookies to provide some features and experiences in QOSHE

More information  .  Close
Aa Aa Aa
- A +

منصور آفاق

53 0
19.05.2024

چمن کی صورتحال انتہائی نا گفتہ بہ ہے۔ پھول مرجھا رہے ہیں۔ فضا دھواں دھواں ہے۔ تتلیوں کے رنگ مٹھیوں میں بکھرتے جا رہے ہیں۔ ہوائیں ساکت ہیں۔ درختوں پر خزاں جمی ہوئی ہے۔ سایہ ِگل میں دھوپ ناچ رہی ہے۔مالی بھی پیڑوں سے انصاف نہیں کر پا رہے۔ چمن ان کے قبضے میں ہے جو گل و بلبل کو جانتے ہی نہیں۔ کوئلیں کوکنا بھول گئی ہیں۔ یہ اس چمن کا قصہ ہے جب سرخ و سپید چہروں والے سیب مارکیٹ آتے تھے تو ریڑی بان آوازیں لگاتے تھے کہ چمن کے سیب آ گئے۔ یہ سیب چمن کے نہیں ہوتے تھے۔ بس چمن کے راستے سے پاکستان آتے تھے۔ وہاں کا کیا نقشہ کھینچوں۔ بس بات اتنی ہے کہ لاکھوں افراد پر مشتمل شہر کی زندگی کسی نے مفلوج کر دی ہے۔ پُرامن احتجاج کے نام پر وہاں تقریباً دو ہفتوں سے سارے راستے اور شاہراہیں بند ہیں۔ ٹریلر، ٹرک، بسیں اور دوسری گاڑیاں منجمد کر دی گئی ہیں۔ ان کے ڈرائیو اور مسافر راستہ کھلنے کے انتظار ِ وحشت ناک میں نفسیاتی مریض بنتے جا رہے ہیں۔ احوال ِ معاش کا کیا پوچھتے ہو، تاجروں کا نقصان، بیان سے باہر ہے۔ دیہاڑی پر کام کرنے والے شام کو فاقے گھروں میں لے جاتے ہیں۔

یہ شہر جغرافیائی لحاظ سے انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ یہاں کے مقامی قبائل محب وطن اور انتہائی لحاظ دار ہیں۔ اخوت و مروت کا مرقع ہیں اور ان کا پورے پاکستان کے کاروباری لوگوں سے بڑا خوبصورت تعلق ہے مگر بدقسمتی سے مقامی آبادی اس وقت چند مفاد پرستوں اور غیر مقامی لوگوں کے ہاتھوں اذیتوں کا شکار ہے۔ خاک وخون کے کچھ سوداگر چاہتے ہیں کہ وہاں خون کی ندیاں بہیں۔ عمارتوں کو آگ لگے۔ اس آسودہ شہر پر جہنم کے پھاٹک کھل جائیں۔ ان میں زیادہ تر ایسے غیر قانونی تارکین ہیں۔ جو اپنی معاشی بدحالی کے سبب اس چمن میں وارد ہوئے اور اب اسے خزاں رسیدہ بنانے پر تلے ہیں۔ یہاں جرائم میں اضافہ بھی انہی کی وجہ........

© Daily Jang


Get it on Google Play