اسد مفتی
اوروں کی طرح چلا گیا وہ بھی....
کہ جیسے پنجاب کی تاریخ کراہ رہی ہو کہ جیسے ایک عہد ختم ہو گیا ہو۔اداروں کی طرح اس کا سوگ منانےکی روایت بھی ہم ضرور پوری کریں گے کہ ہم روایتیں نبھانے میں بڑے وضع دار او رماہر ہیں بلکہ سچ پوچھئے تو شوقین ہیں پر اس وقت وارث شاہ کے بول میرے ذہن میں گونج رہے ہیں۔
’’بھلا موئے تے وچھڑے کون میلے‘‘
جانے ہم زندوں کی قدر کرنا کب سیکھیں گے۔ ہم قریب المرگ انسانوں تک سے بے پروا ہو جاتے ہیں انہیں جانے سے نہیں روک سکتے۔ بلکہ اس وقت کا انتظار کرتے ہیں کہ کب کوئی سدھارے اور ہم اپنا روایتی ’’تعزیت چھلکاتا چہرہ‘‘ لئے جائیں اور مرنے والےکے ٹھنڈے ٹھار بدن کو کاندھا دے کر مٹی میں جا ملیامیٹ کریں۔ اس لمحے بھی ہمارے پاس اتنا وقت نہیں ہوتا کہ ’’کریں کج جبیں سے سرکفن‘‘ اور اس کی تشنہ کام آنکھوں میں قاتلوں کے نام تو پڑھ لیں۔ کبھی کبھی تو مجھے خود پر بھی گمان ہوتا ہے کہ کہیں میںبھی فنکاروں کی جان لینے والے قبیلے سے تو تعلق نہیں رکھتا۔ جیسے میں نے احمد راہی کو فراموش کر دیا۔ اسکی بیماری کی خبر سن کر بھی دو سطریں تک نہ لکھ سکا ۔ ایک آدھ سطر کی خبر کے ذریعہ اپنے اور اسکے دوستوں ، سجنوں کو دیار غیر میں اطلاع تک نہ دے سکا لیکن شاید نہیں، میں نے احمد راہی کی علالت کی منحوس خبر اپنے اخبار کو بھیجی تھی لیکن بوجہ شائع نہ ہو سکی۔ چلو میں تو اپنے حساب سے سرخرو ٹھہرا۔
شہرۂ آفاق گیتوں اور نغموں کا خالق ’’ترنجن‘‘ لکھ کرامر ہو گیا۔
احمد راہی امرتسر میں پیدا ہوا، پڑھائی کے دوران شاعری کے علاوہ آوارہ گردی کرتا رہا۔ ایک بار اس نے مجھے بتایا تھا ’’جب میرے والد کا انتقال ہوا اس وقت اگر میرے بھائی کے پاس ملازمت نہ ہوتی تو ہم رل جاتے۔ آج میں احمد راہی نہ ہوتا صرف غلام محمد ہوتا‘‘۔ پھر اس نے بتایا ’’ہال بازار امرتسر میں شیراز ہوٹل تھا۔ وہاں منٹو، باری........
© Daily Jang
visit website