بجٹ کے چند روشن پہلو
[email protected]
کچھ لوگ ہوتے ہیں جو روشنی میں بھی ہمیشہ تاریکی تلاش کرتے ہیں، جیسے بجٹ پر تنقید کرنے والے۔ نیا بجٹ آتا ہے تو اس کے ساتھ بہت کچھ نیا آتا ہے لیکن ایک چیز ایسی ہے جو ہرگز نئی نہیں۔ وہ ہے تنقید۔ حکومت بجٹ بناتے ہوئے خواہ جان پر کھیل جائے، تنقید کرنے اپنا کام کرتے جاتے ہیں، خواہ یہ تنقید عوام کو گمراہ کرے، خواہ ان کا حوصلہ توڑے۔ اس بار بھی کچھ مختلف نہیں ہوا۔ پروپیگنڈے کے طوفان میں بجٹ کے درجنوں روشن اور بہترین پہلو پس منظر میں چلے گئے ہیں۔ ان سطور میں ان ہی پہلوؤں پر ایک نظر ڈالنا مقصود ہے۔
یہ درست ہے کہ سال 2024-25 کا بجٹ آئی ایم ایف کے مشوروں بلکہ فریم ورک کی روشنی میں تیار کیا گیا جس کا اعتراف وزیر اعظم شہباز شریف بھی کر چکے ہیں لیکن اس کے باوجود حکومت کی طرف سے آئی ایم ایف کی شرائط کی مزاحمت کی گئی اور حکومت اپنے عوام کو بوجھ سے بچانے کے لیے متبادل تجاویز سامنے لائی اور انھیں تسلیم کرانے میں کامیاب رہی۔ وفاقی وزیر اطلاعات عطا اللہ تارڑ کا ایک بیان ریکارڈ پر ہے جس میں انھوں نے انکشاف کیا ہے کہ عالمی مالیاتی ادارہ بعض شعبوں میں 45 فیصد ٹیکس کے نفاذ کا خواہش مند تھا لیکن حکومت نے اس مطالبے کی مخالفت کر کے ٹیکس کی شرح 35 فیصد پر لے آئی۔ ان شعبوں کی فہرست یہاں پیش کی جائے تو مضمون میں طوالت پیدا ہو جائے گی تاہم یہاں ان چند شعبوں کا ذکر ضروری ہے جن کے ذریعے پاکستانی عوام کو مالی بوجھ سے بچا کر آسانی فراہم کرنے کی کوشش کی گئی ہے لیکن پروپیگنڈے کے طوفان میں........
© Express News
visit website