تعلیمی ایمرجنسی
وزیر اعظم شہباز شریف نے ملک میں تعلیم کے فروغ کے لیے تعلیمی ایمرجنسی کا اعلان اور سکول سے باہر دو کروڑ 60 لاکھ بچوں کے سکولوں میں اندراج کے عزم کا اعادہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ تعلیمی شعبے کی خود نگرانی کریں گے۔ ان کا یہ کہنا سو فیصد صائب ہے کہ تعلیم کے بغیر کوئی قوم ترقی نہیں کر سکتی‘ لیکن سوال یہ ہے کہ یہ خیال اتنی تاخیر سے کیوں ذہن میں آیا؟ تعلیم کے شعبے کا مسئلہ صرف یہ نہیں کہ پاکستان میں کروڑوں بچے سکولوں سے باہر ہیں بلکہ یہ بھی ہے کہ ہمارا ملک خواندگی کے لحاظ سے جنوبی ایشیا کے خطے میں بہت پیچھے ہے‘ پوری دنیا کی بات کی جائے تو ظاہر ہے ہمارا شمار کسی قطار میں نہیں ہو گا۔
ایک اور بھارتی اداکارہ کی نجی ویڈیوز اور تصاویر لیک ہوگئیںاقوام متحدہ کے تعلیم سے متعلق ادارے یونیسکو کی ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ پاکستان میں شرح خواندگی 79 فیصد ہے اور اس تناسب کے ساتھ پاکستان دنیا کے 221 چھوٹے بڑے ممالک کی فہرست میں 180ویں نمبر پر ہے۔ یاد رہے کہ شرح خواندگی کے جن پیرامیٹرز کو پیشِ نظر رکھ کر یہ رپورٹ تیار کی گئی ان کے مطابق کسی ملک یا قوم کی کُل آبادی میں سے 10 سال سے زیادہ عمر کے افراد میں سے جو کوئی کسی بھی زبان میں تھوڑا بہت لکھ اور پڑھ سکتا ہو وہ خواندہ کہلائے گا۔ یہ اعداد و شمار 2012ء کے ہیں لیکن میں نے اپنے کالم میں اس لیے درج کر لیے کہ ہمارے ملک میں ترقی کرنے اور آگے بڑھنے کی جو رفتار ہے‘ حتیٰ کہ تعلیم کو فروغ دینے کے جو معاملات ہیں‘ ان کو پیش نظر رکھا جائے تو آج 12 سال بعد بھی اس شرح میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہو گی‘ آئی بھی ہو گی تو خفیف سی۔
رہا ہونے والامجرم اہلیہ سے بدلہ لے........© Daily Pakistan (Urdu)
visit website