Aa
Aa
Aa
-
A
+
اُردو شاعری کی آنکھیں…(4)
اُردو، پنجابی غزل، نظم، گیت میں اپنی الگ سے دھاک بٹھانے والے منیر نیازی کہ جنھیں زمانے سے زیادہ اپنے لالچی، سازشی، خوشامدی ہم عصروں سے شکوہ رہا ’ہم زباں میرے تھے، اُن کے دل مگر اچھے نہ تھے… منزلیں اچھی تھیں، میرے ہم سفر اچھے نہ تھے‘ انھوںنے موضوع اور مزاج کے حوالے سے اپنی انفرادیت اور زندہ دلی کو ہمیشہ برقرار رکھا۔ ان کی شاعری میں مسلسل جاری رہنے والے خواب ناک ماحول کی بنا پر اسے طلسم خانۂ حیرت بھی کہا جاتا ہے: اِک شام سی کر رکھنا کاجل کے کرشمے سے اِک چاند سا آنکھوں میں چمکائے ہوئے رہنا آنکھوں میں اُڑ رہی ہے لٹی محفلوں کی دھُول عبرت سرائے دہر ہے اور ہم ہیں دوستو! احمد فراز جدید عہد کا وہ سجیلا شاعر ہے، جو شدید رومانی لہروں سے اَکھ مٹکا کرتا، آنکھوں اور کانوں کے راستے سے ہوتا ہوا نہ صرف سیدھا نئی نسل کے دل میں اُتر گیا بلکہ وہیں مستقل ٹھکانہ بنا کے بیٹھ گیا۔ دیگر سیاسی، سماجی، رومانی موضوعات کے ساتھ ساتھ آنکھوں کے حوالے سے بھی ان کے اس طرح کے اشعار آج بھی زبان زدِ عام و خاص اور جاذبِ کل جہان ہیں: اُس کی آنکھوں کو کبھی غور سے دیکھا ہے فراز سونے والوں کی طرح جاگنے والوں جیسی! پھر ان کی وہ مقبول ترین غزل کہ جسے ہر طرح کے حلقوں اور ہر عمر کے لوگوں میں بہت پذیرائی ملی، اُس میں بھی آنکھ ہی ایسا موضوع ہے جسے انھوں نے ایک ہی غزل میں بار بار........
© Daily 92 Roznama
visit website