Aa
Aa
Aa
-
A
+
اُردو شاعری کی آنکھیں…(2)
دوستو! بڑا فن کار بھی کیا کمال چیز ہوتا ہے۔ ذیل میں میر تقی میر کے چار شعر دیکھیے، جو بہ ظاہر ہم نے میر کی آنکھوں سے مزید دلچسپی دکھانے کی غرض سے تلاش کیے ہیں لیکن ذرا سا غور کریں تو میر کی ان آنکھوں سے نہ صرف اُس کے پورے عہد کو بہ خوبی دیکھا جا سکتا ہے بلکہ کبھی کبھی تو بقول ناصر کاظمی یوں لگتا ہے کہ میر کا عہد ہمارے عہد سے آن ملا ہے: اس باغ کے ہر گل سے چِپک جاتی ہیں آنکھیں مشکل بنی ہے آن کے صاحب نظروں کو وے دن گئے کہ آنکھیں دریا سی بہتیاں تھیں سُوکھا پڑا ہے اب تو مدت سے یہ دو آبہ تن کے معمورے میں یہی چشم و دل گھر تھے دو ، سو خراب ہیں دونوں کیا جانوں چشمِ تر سے ادھر دل کو کیا ہوا؟ کس کو خبر ہے میر سمندر کے پار کی پھر اس شعر کی بابت تو مرزا مُفتہ کئی بار موشگافی فرما چکے کہ یہ شعر میر نے ہمارے عہد دو رقاص بہنوں کے فن کے پیشگی اعتراف کے طور پر کہا تھا: کاسۂ چشم لے کے جوں ’نرگس‘ہم نے ’دیدار‘ کی گدائی کی خواجہ میر درد، چشم کو آئینہ خانۂ دہر قرار دینے والے میر تقی کی نظروں میں اگرچہ آدھا شاعر ہے لیکن ناصر کاظمی کے بقول ایسے عالی دماغ اور روشن چراغ کے سامنے آدھا شاعر ہونا بھی کسے نصیب تھا؟ میر درد کے عمومی تعارفیے میں تصوف کی مبالغہ آرائی بہت زیادہ........
© Daily 92 Roznama
visit website