Aa
Aa
Aa
-
A
+
وِرک، وڑائچ، وچار (2)
ہماری بس میں پچیس خواتین اور بیس مرد تھے، جو لبیک کی صدا اور البیک کی غذا کے ساتھ سفر جاری رکھے ہوئے تھے ۔ مدینہ سے مکہ کے راستے میں تپتا بلکہ دہکتا صحرا چاروں جانب پھیلا دکھائی دیتا تھا۔ کہیں کہیں جنرل ضیا الحق کے زمانے میں متعارف کرائے گئے نیم یا نِم کے درخت بھی دکھا ئی دے جاتے، جن کے نیچے یقینا نمی نمی ہوا بھی چلتی ہوگی۔ وسیع اور ہموار سڑکوں پر ہر قبیل کی رنگا رنگ( بلکہ ان کی رفتار اور ہیئت کی وجہ سے انھیں دنگا دنگ بھی کہا جا سکتا ہے) گاڑیاں فراٹے بھرتی جا رہی تھیں۔ کبھی کبھی برابر سے نیلے انجن والی سفید ریل بھی مہیب اژدہے کی مانند گزرتی دکھائی دیتی۔ گاہے گاہے مسافروں اور مقامی آبادی کے لیے بنائی گئی چمک دار اور چُونے گزمساجد پہ بھی نظر ٹھہرتی۔ شدت کی اس گرمی میں کہیں اونٹنیوں کا کوئی گروہ اپنے نو زائیدہ بچوں سمیت مطمئن انداز میں جگالی کرتا بھی نظر آ جاتا تو فوراً دھیان میں آتا کہ قدرت والا اگر کسی کو جھلستے صحرا میں رکھتا ہے تو پتھر جیسا حوصلہ بھی عطا کر دیتا ہے۔ بابا جی دونوں طرف لق و دَق صحرا کا یہ منظر دیکھ کے کہنے لگے: سیانے صحیح آکھدے سن، مَکیوں اَگے اجاڑ… بابا وڑائچ کی ایک بیٹی امریکا، ایک انگلینڈ میں ہے۔ کہنے لگے مَیں بیٹی سے ملنے انگلستان گیا تو خصوصی طور پر آکسفورڈ اور کیمرج کا دورہ کیا کہ دیکھوں تو سہی کہ یہ کون سی جادو نگریاں ہیں، جو محمد علی کو قائدِ اعظم، اقبال سیالکوٹی کو دانائے راز، حکیم الامت اور عمران نیازی کو عمران خان بنا دیتی ہیں۔ ہماری یونیورسٹیوں کے فارغ التحصیل تو پکوڑے بیچ رہے ہیں۔ جذبات میں بابا جی کا والیم ذرا اونچا ہوا تو پیچھے سے........
© Daily 92 Roznama
visit website