Aa
Aa
Aa
-
A
+
اے میرے معروف صحافی!
میرے پیارے اور قابلِ احترام صحافی صاحب! سب سے پہلے تو آپ کو یہ بات باور کراتا چلوں کہ ہمارے تعلق کی مدت کم و بیش کے امکان کے ساتھ تین دہائیوں پر محیط ہے۔ مطالعے سے عشق کی بنا پر ہمیں اخبار بینی کی لَت تو خیر سکول کے زمانے ہی سے پڑ چکی تھی۔ ادبی رسائل میں لکھنے لکھانے کا سلسلہ بھی نوے کی دہائی کے ساتھ ہی شروع ہو گیا تھا، ستائیس سال قبل اخبار میں کالم نگاری کا معاملہ بھی آغاز ہو گیا۔ جب 27 فروری 1997ء کو ’’دیر آید، غلط آید‘‘ کے عنوان سے روزنامہ ’دن‘ میں پہلا کالم شائع ہوا۔ کالم نگاری کا مقصد صرف اپنے ارد گرد کے مسائل کی نشان دہی اور اپنی استطاعت کے مطابق تعلیم، ادب، دیہات اور کسان سے متعلق (کہ یہی میرے دائرہ ہائے تخصص تھے) حکامِ بالا کو کچھ مشورے دینا تھا۔ اس وقت کے وزیرِ اعلیٰ پنجاب جناب شہباز شریف نے بعض کالموں کا خصوصی نوٹس بھی لیا تھا لیکن یہ اس وقت کی بات ہے جب ان کے ہاتھ کسی مصلحت، مفادیا مجبوری کی ڈور سے بندھے ہوئے نہیں تھے۔ مذکورہ بالا پہلا کالم بھی اس دن لکھا تھا، جب پوری قوم بھاری ترین مینڈیٹ والے وزیرِ اعظم کی امیدوں، خوابوں، سرابوں سے بھری پہلی تقریر سننے کے لیے اکلوتے پی ٹی وی کے سرہانے چار گھنٹے تک منتظر بیٹھی تھی اور موصوف شیروانی کے سائز، ناشتے کے لوازمات اور طرح طرح کے بوالہوس مشیروں کی لچھے دار باتوں میں الجھے رہے۔ مجھے یاد ہے اس زمانے کا سب سے بڑا نعرہ، وعدہ یا بہلاوا ’قرض اتارو، ملک سنوارو‘ اور کشکول توڑنے کا تھا، جس کے لیے قوم نے اپنا پیٹ کاٹ کر،........
© Daily 92 Roznama
visit website