دی کلائمیٹ بُک: موسمیاتی تبدیلی نظرانداز کرنے کی شرمناک داستان
نوٹ: عالمی موسمیاتی رہنما گریٹا تھیونبرگ کی قیادت میں تالیف کی گئی کتاب ’دی کلائمیٹ بُک‘ جس میں دنیا کے معروف لکھاریوں کے موسمیاتی تبدیلی پر 100 مضامین شامل ہیں، اس کا اردو ترجمہ سلسلہ وار ڈان نیوز ڈیجیٹل پر شائع کیا جارہا ہے۔ اس سلسلے کے دیگر مضامین پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
ابتدا میں یہ ایک مسئلہ نہیں بلکہ سائنسی تصور تھا۔ 1896ء کا ذکر ہے کہ سوئیڈن کے ایک کیمیا دان سوانتے ارہینس نے ایک پیش گوئی کی تھی جو آج بہت مشہور ہے کہ کوئلہ جلانے سے جو کاربن ڈائی آکسائیڈ فضا میں خارج ہورہی ہے اس کے باعث ہم اپنے سیارے کو کئی ڈگری گرم کردیں گے جس حوالے سے اُس دور میں کسی کو کوئی خاص تشویش نہیں ہوئی۔
اس پیش گوئی کو پوری دنیا میں 1950ء تک نظر انداز کیا جاتا رہا۔ پھر دیگر سائنسدانوں نے بھی کہا کہ دنیا میں بڑھنے والی گرمائش کے تباہ کن نتائج سامنے آئیں گے۔ ایک دہائی بعد موسمیات دان سیوکورو منابے نے کمپیوٹر کی مدد سے آب و ہوا کا جائزہ لیا اور اس کی پیش گوئی ارہینس سے کچھ زیادہ مختلف نہیں تھی۔
موسمیاتی ماہر، پرنسٹن یونیورسٹی کے جیوسائنسز اور انٹرنیشنل امور کے پروفیسر اور آئی پی سی سی کے طویل عرصے سے مصنف مائیکل اوپن ہائیمر، گریٹا تھیونبرگ کی کتاب ’دی کلائمیٹ بک‘ میں چھپنے والے اپنے مضمون موسمیاتی تبدیلی کی دریافت میں مزید بتاتے ہیں کہ منابے کے بعد سائنسی تحقیق کی ایک نئی لہر اُٹھی جس میں بدلتی آب و ہوا کے سنگین ہوتے نتائج کا بتایا جانے لگا اور 1970ء کی دہائی کے اختتام تک یہ سائنسی اتفاق سامنے آنے لگا کہ فضا میں کاربن ڈائی آکسائیڈ کے دگنا ہوجانے سے زمین کی گرمائش کتنی بڑھ جائے گی۔ آئیے مزید تفصیل اُن ہی کی زبانی جانتے ہیں۔
میں نے پہلی بار ٹیکنالوجی ریویو نامی جریدے کے 1969ء کے شمارے میں گرین ہاؤس اثرات کے بارے میں پڑھا تھا تب میں کیمیائی طبیعیات میں گریجویشن کررہا تھا۔ انسان آب و ہوا پر کنٹرول رکھتے ہیں یہ جان کر میں بہت خوفزدہ ہوگیا تھا۔ بتدریج میں نے جانا کہ میں اپنی فکرمندی کو مثبت طریقے سے استعمال کرتے ہوئے سیاست میں اپنی دلچسپی اور زمینی فضا پر اپنی مہارت کا استعمال کرتے ہوئے اس مسئلے کا حل ڈھونڈنے میں کردار ادا کرسکتا ہوں۔ یوں 1980ء کی دہائی میں اُن تمام سائنسدانوں کے ساتھ ہوگیا جو خطرے سے خبردار کررہے تھے۔
ارضیاتی نظام کو سمجھنے کے لیے گرین ہاؤس بہترین مثال ہے—تصویر: میٹا اے آئیعالمی حدت کی وجوہات ایک صدی قبل کے مقابلے میں اب زیادہ واضح ہیں۔ زمین کی فضا بنانے والی گیسیز نائٹروجن اور آکسیجن سورج کی روشنی کے لیے شفاف ہوتی ہیں جس کے نتیجے میں سورج کی زیادہ تر روشنی فضا سے ہوتی ہوئی زمین کی سطح گرم رکھتی ہے۔ زمین گرم ہونے پر اپنی گرمائش فضا کو واپس کردیتی ہیں۔ تاہم فضا میں پانی کے بخارات اور دیگر گیسیز خاص طور پر کاربن ڈائی آکسائیڈ واپس جانے والی گرمائش کو روک لیتی ہیں جن میں سے کچھ کو دوبارہ زمین کی سطح کی طرف بھیج دیتے ہیں جس سے زمین کا درجہ حرارت بڑھ جاتا ہے۔
یہ گرین ہاؤس گیسیز ہوتی ہیں کیونکہ وہ فضا میں گرمائش ویسے ہی روکتی ہیں جیسے کہ ہم ایک شیشے کے سبز خانے کا اندرونی درجہ حرارت گرم رکھتے ہیں خواہ باہر کتنی ہی سخت سردی ہو تاکہ خانے کے اندر موجود پودے معمول کے درجہ حرارت میں پھلتے پھولتے رہیں۔ ان گیسوں میں رکے بغیر زمین کی سطح سے پلٹنے والی پوری کی پوری گرمائش اگر سورج کی طرف واپس چلی جائے تو ہمارے سیارے کا درجہ حرارت تقریباً 33 ڈگری سرد ہوجائے گا۔ یعنی یہ فضا کا گرین ہاوس اثر ہے جس نے زمین کا درجہ حرارت قابل رہائش حد تک روکے رکھا ہے تاکہ انسان اور دیگر جاندار دنیا میں زندگی گزار سکیں۔
19ویں صدی میں صنعتی انقلاب کے آغاز سے پہلے تک گرین ہاؤس گیسیز کا کام ہزاروں سال تک بالکل ٹھیک چلتا رہا۔ یعنی زمین کو جتنی گرمائش کی ضرورت تھی، اُسے اتنی ملتی رہی۔ کارخانے چلانے کے لیے کوئلے، تیل اور گیس پر مشتمل قدرتی ایندھن جو دسیوں ہزاروں سال پہلے زمین میں دفن ہونے والے پودوں کی باقیات میں ہوتا ہے، کاربن ہوتا ہے۔ قدرتی ایندھن کو کان کنی اور........
© Dawn News TV
visit website