دی کلائمیٹ بُک: ’اس بار دنیا کے خاتمے کی وجہ پہلی بار انسان بنے گا‘
نوٹ: عالمی موسمیاتی رہنما گریٹا تھیونبرگ کی قیادت میں تالیف کی گئی کتاب ’دی کلائمیٹ بُک‘ جس میں دنیا کے معروف لکھاریوں کے موسمیاتی تبدیلی پر 100 مضامین شامل ہیں، اس کا اردو ترجمہ سلسلہ وار ڈان نیوز ڈیجیٹل پر شائع کیا جارہا ہے۔ اس سلسلے کے دیگر مضامین پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
’اس کہانی کی شروعات ایک معمے میں چھپی ہوئی ہے‘۔ ایسا کہنا ہے ہفت روزہ نیویارکر کی لکھاری اور کئی کتابوں کی مصنفہ الزبتھ کولبرٹ کا، جن کی تحقیق کے مطابق تقریباً دو لاکھ سال پہلے افریقہ میں ایک نئی قسم کا انسان نما جاندار (ہومونن) نمودار ہوا تھا۔
کسی کو یہ صحیح سے نہیں معلوم کہ اُس نئی قسم کا انسان کہاں سے آیا یا اس کے والدین کون تھے لیکن ہم اس قسم کو ’جسمانی طور پر معاصر انسان‘، یا ’ہومو سیپئنس‘ کہتے ہیں۔
گریٹا تھیونبرگ کی کتاب دی کلائمیٹ بک میں ’تہذیب اور معدومیت‘ کے نام سے چھپنے والے اپنے مضمون میں وہ مزید بتاتی ہیں کہ ان انسان نما جانداروں کے گول سر اور نوکیلی ٹھوڑی اُن کی شناخت ہوتی تھی۔ وہ اس وقت کے ملتے جلتے جانداروں سے کم وزن تھے اور ان کے دانت چھوٹے تھے۔ جسمانی طور پر وہ کافی دلکش نہیں تھے لیکن ایسا لگتا ہے کہ وہ انتہائی ہوشیار تھے۔
انہوں نے پہلے تو بنیادی نوعیت کے اوزار بنائے جو دنیا کی ترقی کے ساتھ ساتھ بہتر ہوتے گئے۔ وہ اگلے ادوار تک اپنی بات پہنچانا جانتے تھے۔ وہ مختلف موسموں میں رہ سکتے تھے اور شاید اس سے بھی زیادہ اہم بات مختلف اقسام کی خوراک کے ساتھ گزارا کرسکتے تھے۔ جہاں جانوروں کی بہتات ہوتی تھی وہ ان کا شکار کرتے تھے جہاں شیل مچھلی موجود ہوتی تھی اور وہ اسے کھاتے تھے۔
نیانڈرتھل انسان شکار کرتے ہوئے—تصویر: میٹا اے آئییہ بار بار برف جم جانے والا دور یعنی پلیسٹوسین کا زمانہ تھا جب دنیا کا بڑا حصہ بڑی برف کی سخت چادروں سے ڈھکا ہوا تھا۔ تقریباً ایک لاکھ 20 ہزار سال پہلے یا شاید اس سے بھی پہلے انسان کی وہ نئی قسم شمال کی طرف بڑھنے لگی تھی۔ اُن انسانوں نے ایک لاکھ سال پہلے مشرق وسطیٰ، تقریباً 60 ہزار سال پہلے آسٹریلیا، 40 ہزار سال پہلے یورپ اور 20 ہزار سال پہلے امریکا (شمالی اور جنوبی امریکا) تک پہنچنے کی کوشش کی۔
راستے میں کہیں شاید درمیان کے مشرق وسطیٰ میں انسانوں کی اس نئی قسم ہومو سیپئنس کا اپنی جیسی مگر مضبوط مخلوق سے سامنا ہوا جو نیانڈرتھل کے نام سے بھی جانے جاتے ہیں۔ پھر........
© Dawn News TV
visit website