امریکی جمہوریت سے سبق سیکھیں
امریکی صدر کے حلف اٹھانے کی تقریب جس شاندار طریقے سے ہوئی ہم پاکستانی بھی اس پر اش اش کرر ہے ہیں اگرچہ یہ تقریب بڑے پیمانے پر کھلے علاقے میں نہیں ہوئی تاہم اس میں جو نظم و ضبط دیکھنے میں آیا جس طرح پرامن انتقالِ اقتدار ہوا اس نے سب کو متاثر کیا۔ سب سے اہم بات یہ تھی کہ اس میں سابق صدر جوبائیڈن بھی موجود تھے۔ ہمارے ہاں ایسا نہیں ہوتا۔جانے والا وزیراعظم گھر بیٹھا پیچ و تاب کھا رہا ہوتاہے اور آنے والا اس کے بخیئے ادھیڑنے کو تیار بیٹھا ہوتا ہے۔ انتقال اقتدار کبھی اس طرح نہیں ہوتا کہ جانے والے نے خوشدلی سے آنے والے کو سونپا ہو، بلکہ ہمارے ہاں تو ایسا ہوتا ہے پہلے دن سے دھاندلی کے الزامات لگا کر تحریک چلانے کا اعلان کر دیا جاتا ہے۔ فتح کو تسلیم کرنا ہم نے سیکھا ہی نہیں اور اس کی وجہ یہ بھی ہوتی ہے کہ انتخابات میں ایسے خلاء نظر آتے ہیں کہ ان کی شفافیت سوالیہ نشان بن جاتی ہے۔ ہمارے سیاستدانوں میں ایک دوسرے کے خلاف اتنی نفرت ہے کہ ہاتھ تک ملانا گوارا نہیں کرتے۔ کبھی کسی تقریب میں اگر ہاتھ ملالیں تو بریکنگ نیوز بن جاتی ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ اور جوبائیڈن ایسے ہنس ہنس کر مل رہے تھے جیسے پرانے لنگوٹیے ہوں۔ یہاں اسمبلی کے اندر بھی جب عمران خان وزیراعظم تھے تو شہبازشریف دیکھتے تک نہیں تھے۔ اس سے پہلے نوازشریف اور بے نظیربھٹو کے زمانہ میں صورتحال یہی تھی۔ یہ ہماری جمہوریت کا ایک انتقامی روپ ہے جس نے ساری سیاست کو گدلا کر رکھا ہے۔ عوام کی رائے کو تسلیم نہ کیاجائے تو ایسا ہی ہوتا ہے، اصل میں جمہوریت جس رویے کی توقع کرتی ہے، وہ ہمارے سیاستدانوں میں موجود نہیں۔ ذاتی دشمنی........