
2023کا سب سے بڑا چیلنج… (2)
کسی بھی سطح پہ کسی بھی قوم کے ادارے بے مہارے نہیں ہو سکتے۔ اس کا مطلب کہ سارے اداروں کو ملک کے اعلیٰ ترین قانون یعنی آئین اور ماتحت قوانین (Sub-ordinate legislation) کے مطابق چلنا ہوتا ہے۔ اگر کوئی ادارہ میرا ملک میری مرضی کی پالیسی اختیار کر تا ہے تو ملک آئین کی نظر میں بے اعتبارہ ہو جاتا ہے۔ بحیثیت قوم وہ ادوار دیکھ رکھے ہیں۔ جس میں ادارے بے مہارے ہو کر بے اعتبارے ہوئے۔
اسکندر مرزا سے لے کر یحییٰ خان تک قوم نے بے مہارے حکمران دیکھے۔ ایسے حکمران جن کے دور میں ادارے بے مہارے ہوئے۔ پھر ضیاء الحق صاحب تا پرویز مشرف۔بے مہارے پَن پہلے مذہب کے رنگ میں رنگنے کی کوشش کی گئی۔ پھر راتوںرات ایسا شفٹ آیا کہ وہی ادارے"Enlightened Moderation"کا پٹہ گلے میں لٹکا کر بے اعتبارے ہوگئے۔
دنیا کا کوئی ایسا ملک جو ریاست کی حیثیت سے کامیاب سمجھا جاتا ہو وہاں قانون کی حکمرانی‘ کامیابی کی پہلی اینٹ کے طور پر لگتی ہے۔ اپنے ہاں دیکھ لیجئے‘ جسٹس منیر سے لے کر ظفر علی شاہ تک اور پھر Suo- moto نوٹس کے نتیجے میں ہاتھ پائوں بند کر کے نظریۂ ضرورت کے کلہاڑے سے اکثریت کا شجرِ سایہ دار گرایا گیا۔ جس کی جگہ پھر زہریلی بوٹیاں کمزور معیشت اور تقسیم شدہ قوم کو آبِ زہر سمجھ کر پلا دیا گیا۔
اسی لیے بین الاقوامی ناقد ہمارے نظامِ انصاف کو کرپشن کے ٹاپ 3 کا طعنہ دیتے ہیں۔ ہماری عاجزی اور بے بسی کا نتیجہ یہ ہے کہ ہم کوئی نامعقول سا بہانہ لگا کر بھی الزام سے انکاری نہیںہوسکتے۔ اب تو حال یہ ہو........
© Roznama Dunya


