
عمران خان سے ملاقات … (2)
عمران خان کو وزیراعظم بننے کا سب سے زیادہ فائدہ یہ ہوا کہ ان کی معیشت کی سوجھ بوجھ بہت بہتر ہوگئی ہے۔ ملاقات کے دوران میں نے محسوس کیا کہ وہ معیشت‘ مہنگائی‘ بے روزگاری‘ برآمدات‘ درآمدات‘ زرِمبادلہ کے ذخائر اور کرنسی کی گراوٹ پر گھنٹوں گفتگو کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ میرے سوال کے جواب میں وہ مسلسل بول رہے تھے۔ انہوں نے کہا کہ ٹھیک ہے‘ ہمارے آخری مالیاتی سال میں کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ ساڑھے سترہ ارب ڈالر تھا مگر ہم کیا کرتے؟ درآمدات پر پابندی لگا دیتے؟ ایل سیز بند کردیتے؟ خام مال کو ملک میں آنے سے روک دیتے؟ اگر ہم ایسا کرتے تو ملک میں کاروبار ی سرگرمیاں متاثر ہوتیں‘ بے روزگاری بڑھ جاتی اور گروتھ نہ ہونے کے برابر ہوتی۔ کرنٹ اکاؤنٹ خسارے کو زبردستی نہیں روکا جا سکتا۔ موجودہ حکمرانوں نے کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ کم کیا ہے مگر کیا معیشت بہتر ہوگئی؟ ایل سیز اور کارخانے بند ہیں‘ صنعتکار پریشان ہیں۔ بے روزگاری بڑھ رہی ہے اور مہنگائی کا تو کوئی شمار ہی نہیں ہے۔ انہوں نے معیشت کو تباہ کردیا ہے۔ درآمدات بند کرکے کرنٹ اکاؤنٹ خسارے کو کم کرنا مسئلے کا حل نہیں ہے۔ میں نے کہا: آپ نے حفیظ شیخ کے زمانے میں ایسا ہی کیا تھا۔ حفیظ شیخ نے غیر ضروری درآمدات بند کر دی تھیں۔ وہ گروتھ سے پہلے خسارے کم کرنے کی کوشش میں تھے مگر شوکت ترین نے شرح نمو بڑھانے کے لیے خسارے بہت زیادہ کردیے تھے۔ خان صاحب حفیظ شیخ کا ذکر کرتے ہوئے تھوڑے بے چین دکھائی دیے۔ انہو ں نے کہا کہ حفیظ شیخ کی اپنی پالیسیاں تھیں مگر اس کے بعد ہم نے بہت کچھ سیکھا ہے۔ ہمیں آخری دوسال میں حکومت چلانے کا فن آگیا تھا۔
خان صاحب جوشِ جذبات میں بہت سے حقائق بیان کررہے تھے۔ انہوں نے کہا کہ جب ہم نے اقتدار چھوڑا تو سٹیٹ بینک کے پاس زرِمبادلہ کے ذخائر 16ارب........
© Roznama Dunya


