
ٹرمپ کارڈ کے خوف کی لہر… (2)
حکمران اشرافیہ جہاں جہاں بھی اپنے لوگوں سے پُر تشدد‘ زور آزمائی پہ اُتر آئے‘ آپ سمجھ لیں وہ سیاسی طاقت کے اصل سرچشمے سے خوفزدہ ہے۔ اس صدی میں بھی پاکستان کے پڑوس میں ایسے ممالک ہیں جہاں دکھاوے کا آئین ہے۔ سنگل پارٹی سسٹم سے بھی محدود سلیکشن کو الیکشن کہا جاتا ہے۔ پاپائیت کو جمہوریت کہنے پر اصرار ہے۔ یقین نہیں آتا کہ کسی کو احتجاج کے نام پر موت کے گھاٹ اُتارا جا سکتا ہے۔ مورخہ یکم دسمبر 2022ء کو اسی صفحے پر چھپنے والے وکالت نامہ کا ایک جملہ قَندِ مُکرَّر کے طور پر دہراتا ہوں؛
''اِسی لیے غیر سرکاری تاریخ لکھنے والے کہتے ہیں انسانی تاریخ کی بڑی نا انصافیاں جنگ کے میدانوں میں نہیں بلکہ عدالت کے کمروں میں ہوتی ہیں‘‘۔
کسی زمانے میں خوف ہوتا تھا‘ خوف کا حصار نہیں ہوتا تھا۔ ڈکٹیٹر شپ ہوتی تھی لیکن ڈکٹیٹر خود سامنے آتا تھا۔ اب سیاست میں بھی 5th Generation War در آئی ہے۔ ریاستی تشدد سے زیادہ مافیاز کو عوامی بیداری کی لہر سے ڈر لگتا ہے۔ عرب سپرنگ ماضی قریب کی مثال ہے جبکہ برادر اسلامی ممالک بنگلہ دیش اور ایران آج آپ کے سامنے ہیں۔ ذکر ہو رہا تھا خوف کا۔ خوف کی دو لہریں اُبھر کر ملکی سیاست کے منظر نامے پر چھائی ہیں۔
خوف کی پہلی لہر: پنجاب میں حکومت کے توڑنے کی ہے۔ پہلے ہمیشہ مخالف پارٹی کی حکومت ٹوٹنے پر پٹاخے پھٹتے‘ مٹھائی بٹتی اور ڈھول بجتے تھے۔ اب حکومت توڑنے کے لیے ترلے سے بھی اگلی منت سماجت کے بعد گیم........
© Roznama Dunya


