
مزاحمت کی نئی منزلیں…(2)
یہاں حکومتیں بنتی بگڑتی اور وقت سے پہلے گرتی رہیں۔ حزب ِاختلاف میں شامل جماعتیں بلاتخصیص ہر طرح کے حربے استعمال کرتے ہوئے کسی طور مسندِ اقتدار پر جا بیٹھتیں۔ ہمارے ہاں جمہوریت اسی کھیل کا نام تھا۔ کرسیوں کی لڑائی سے ہماری جان صرف غیر جمہوری حکومتوں کے دوران ہی چھوٹی۔ اب بھی وہی تماشا ہے جو ہمارے ہاں سدا سے نام نہاد جمہوریت کا چلن رہا ہے۔ اس میں بہتر ی آ سکتی تھی‘ اگر غالب سیاسی گھرانوںکی سرپرستی نہ کی جاتی تو ہماری سیاست میں فطری توازن پیدا ہوجاتا۔ لوگوں کو ہر بر سرِقتدار جماعت کی حکمرانی کو پرکھنے کا موقع مل جاتا اور کوئی بھی چند برسوں تک خزانوں پر ہاتھ صاف کرنے کے بعد ماتھے پر مظلومیت کا لیبل لگا کر سیاسی میدان میں دند ناتا نہ پھرتا۔ ہر دو کو بار بار موقع اس لیے دیا گیا کہ جمہوریت کا بھرم رہے۔ کسی سیاسی طوفان کا سامنا نہ کرنا پڑے اور پس پردہ رہ کر مہروں کو آگے پیچھے کرنے کا سلسلہ جاری رہے۔ کئی وجوہات میں سے یہ ایک بڑی وجہ رہی ہے کہ ریاستی اقتدار مکمل طور پر کسی بھی منتخب حکومت کے سپرد نہ کیا گیا۔ بہت تاویلیں آپ سنتے رہتے ہیں مگر میرے نزدیک سیاست جس رنگ میں بھی ہواور اس کا محور اور مرکز کہیں بھی ہو‘ افراد کے مفادات کے تابع رہتی ہے۔ جمہوریت‘ نمائندگی اور اداروں کی خود مختاری اور ملکی حالات کو سنبھالنے میں کلیدی کردار صرف اور صرف جواز کے طور پر پیش کیے جاتے رہے ہیں۔
ہمارے ملک میں ویسے تو کئی چھوٹے بڑے ‘ علاقائی ‘ قومی اور مذہبی سیاسی دھڑوں نے سیاسی منڈی لگائی ہوتی ہے مگر طاقت کا اصل سرچشمہ ہماری تاریخ میں چار آمرانہ حکومتیں رہی ہیں۔ جو سیاسی گھرانے ہمیں آج اکثر دکھائی دیتے ہیں‘ وہ انہی........
© Roznama Dunya


