
ادارے ایسے برباد نہیں ہوتے … (1)
ملکِ عزیز کی اقصادی بوری نہ صرف یہ کہ پھٹی ہوئی ہے بلکہ اس کا سوراخ بھی روز بروز بڑا ہوتا جا رہا ہے۔ اب بھلا ایسی صورت میں اس بوری کو بھرنا کس طرح ممکن ہے؟ ظاہر ہے ایسی بوری کو بھرنا ممکن نہیں ہے۔ اس روز افزوں بڑے ہوتے ہوئے سوراخ میں آپ مزید قرضوں کا جتنا بھی اناج ڈالیں اس کا کوئی فائدہ نہیں۔ اس بوری کو بھرنے کے لیے جو کام سب سے ضروری اور فوری کرنے کا ہے وہ یہ ہے کہ اس بوری کی مرمت کی جائے۔ اس کے پھٹے ہوئے حصے کو سِیا جائے اور اس سوراخ کو بند کیا جائے۔ فی الوقت ہماری اقتصادی بربادی کے پیچھے دو عوامل سب سے اہم ہیں۔ ایک یہ کہ ملکی آمدنی کا بیشتر حصہ کرپشن‘ کمیشن اور کک بیکس کی صورت اوپر ہی اوپر سے غائب ہو جاتا ہے اور دوسرا مسئلہ خسارے میں چلنے والے وہ ریاستی ادارے ہیں جن کے باعث ہر سال اربوں روپے اس سوراخ سے نکل کر کھوہ کھاتے جا رہے ہیں۔ خسارے سے چلنے والے اداروں نے ملکی معیشت کی بوری میں جو سوراخ کررکھا ہے وہ ہر گزرتے دن پہلے سے بڑا ہوتا جا رہا ہے‘ لہٰذا بوری میں کچھ ٹک بھی نہیں رہا اور ہم اسے بھرنے کی کوشش میں قرض دار در قرض دار ہوئے جا رہے ہیں۔ ان سوراخوں کے خسارے کو پورا کرنے کیلئے کبھی موٹروے اور ایئرپورٹ گروی رکھنے کی کوشش کرتے ہیں‘ کبھی آئی ایم ایف کے آگے کشکول پھیلاتے ہیں‘ کبھی دوست عرب ممالک کے سامنے ہاتھ پھیلاتے ہیں‘ کبھی ورلڈ بینک سے قرضہ لیتے ہیں اور کبھی بے رحم اور لٹیر ے چینی بینکوں سے بھاری سود پر رقم ادھار لیتے ہیں۔ لیکن معاملہ روز بروز ستیاناس سے سوا ستیاناس ہوتا جا رہا ہے۔ سارے ادھار‘ سارے قرضے‘ ساری ملکی آمدنی‘ بیرونی ممالک سے پاکستانیوں کی بھیجی گئی ساری رقوم اور حاصل ہونے والا زرِمبادلہ درآمد اور برآمد کے درمیان شدید عدم توازن اور مختلف اداروں کے خسارے کو پورا........
© Roznama Dunya


