
مشرف اور اُس کے تنازعے…(1)
کمانڈو‘ صدر‘ آرمی چیف‘ سیاسی پارٹی کا سربراہ‘ سنگین غداری کا ملزم‘ زیرِ علاج‘ امریکہ کا نان نیٹواتحادی‘ روشن خیال آئیکون‘ قیدی‘ مفرور‘ سزائے موت۔ مرحوم پرویز مشرف نے اپنی 79سالہ زندگی میں یہ ساری ٹوپیاں پہنیں۔
جنرل مشرف نے دہلی میں اپنی آنکھ کھولی اور دبئی میں آنکھیں بند کر لیں۔ یوں پاکستانی سیاست کا ایک متنازع اور سیاست میں مقتدرہ کی بھر پور مداخلت کا عہد یادِ ماضی بن گیا۔ میں اُس قافلے کی اول صف میں رہا جس نے جنرل پرویز مشرف کی پارلیمنٹ کے اندر اور بار ایسوسی ایشن میں مخالفت بھی کی اور مزاحمت بھی۔ اُن کا دور اب ایک تاریخ ہے۔ جس پر لکھنے والے اپنے اپنے اینگل سے طبع آزمائی کریں گے۔
بہت سارے لوگ جنرل مشرف کے Beneficiary ہیں‘ جنہوں نے اچھا وقت اُن کی گود میں بیٹھ کر گزارا اور بُرے وقت اُن سے ایسے بھاگے جیسے جلے ہوئے گائوں سے جوگی بھاگتا ہے۔ اُن کے دور میں لوگوں پر مظالم بھی ہوئے اور مہربانیاں بھی۔رومیٔ کشمیر میاں محمد بخش ؒ موت کی ابدی حقیقت پریوں کہہ گئے؎
دشمن مرے تے خوشی نہ کریئے‘ سجنا ںوی مر جانڑاں
دیگر تے دن ہویا محمدؔ اُوڑک نوں ڈُب جانڑاں
پرویز مشرف نے 12اکتوبر 1999ء کے روز کٹھمنڈو سے پاکستان کا سفر اختیار کیا۔ اُس وقت کے وزیر اعظم نواز شریف نے جنرل مشرف کا ہوائی جہاز فضا میں معلق کر دیا۔ اپنے ہی آرمی چیف کو پاکستان میں لینڈ کرنے کی اجازت نہ دی۔ طیارے کے پائلٹ........
© Roznama Dunya


