
ہم اور ہمارے ہمسائے
اب تو ہمسائے سے تقابل کرتے ہوئے بھی شرم سی آنے لگی ہے‘ بلکہ ہمسایوں سے بھی کہہ لیں تو بات غلط نہیں ہے ہمارے ہمسائیوں میں بھارت‘ چین‘ افغانستان اور ایران ہیں۔ چین کو تو خیر بھول ہی جائیں کہ اس سے کبھی مقابلے یا موازنے کی نوبت آئے کہ معاملہ اب اتنا بے جوڑ ہو چکا ہے کہ یہ سوچ کر حیرانی ہوتی ہے کہ کبھی چین نے اپنی ویونگ انڈسٹری یعنی کپڑا بننے کی صنعت کو بہتر بنانے اور جدید رُخ دینے کی غرض سے پاکستان سے کپڑا بننے کی لومیں منگوائی تھیں۔ یہ وہ دور تھا جب بیکو کا ڈنکا بجا کرتا تھا اور پاکستان کی ترقی کرتی ہوئی صنعتوں پر ذوالفقار علی بھٹو کی جانب سے قومی صنعتوں کو سرکاری تحویل میں لینے کا عظیم الشان فیصلہ مسلط نہیں ہوا تھا۔
چین کا ایک اعلیٰ سرکاری وفد پاکستان آیا اور تب BECO یعنی بٹالہ انجینئرنگ کمپنی اس خطے میں بہترین برقی لومیں تیار کرنے کی صلاحیت رکھتی تھی۔ اس کے علاوہ بھی پاکستان کو صنعتی صلاحیتوں کے اعتبار سے لیڈر ملک سمجھا جاتا تھا۔ بسیں‘ جیپیں اور اسی نوع کی بہت سی بھاری صنعتیں اس ملک کو خطے کا ممتاز اور نمایاں ملک بناتی تھیں۔ پھر اس کے بعد جو ہوا وہ تاریخ ہے۔ خیر بات ہو رہی تھی ہمسایوں کی جس میں چین کا ذکر آ گیا۔ اب بھارت سے بھی کوئی مقابلہ نہیں رہا۔ چاند پر جانے والی بات کو ایک طرف رکھیں۔ بھارت آئندہ چند سال میں بھارت میں چلنے والی روایتی کاروں کو بھارتی ساختہ الیکٹرک گاڑیوں سے بدل دے گا۔ اس کا الیکٹرک سکوٹر خلیجی ممالک میں برآمد ہونا شروع ہو گیا ہے۔ بھارتی سکوٹر اور رکشے میں نے خود کموڈیا میں چلتے دیکھے تھے۔ جیگوار‘ لینڈروور اور اسی قسم کی دیگر کئی بین الاقوامی شہرت اور مارکیٹ کی حامل آٹو موبائل کمپنیاں بھارتی کمپنی ٹاٹا نے خرید لی ہیں۔ آئی ٹی انڈسٹری میں ان کی آمدنی ہماری کْل ملکی آمدنی کے برابر آ چکی ہے اور زر مبادلہ کے ذخائر کی تو بات ہی نہ کریں۔........
© Roznama Dunya


