
مذہب کے ٹھیکیداروں کی کسمپرسی
سفر کیے بغیر چونکہ گزارا نہیں‘ اس لیے سفر کرنا مجبوری ہے۔ یہ میرا شوق بھی ہے اور مجبوری بھی۔ اس کے بغیر نہ گزارا ہے اور نہ گزران‘ لیکن ایمانداری کی بات ہے کہ اب ہر سفر کے اختتام پر ایک عجیب سا ملال اور مسلسل کھو دینے کا احساس ہوتا ہے اور ہر نئے سفر میں یہ احساس اور ملال بڑھتا جا رہا ہے۔ گزشتہ سال اگست کے مہینے میں ہی دبئی آنا ہوا اور اس سال بھی قریب قریب انہی تاریخوں میں دوبارہ دبئی میں ہوں۔ یعنی تقریباً پورے ایک سال کے بعد ادھر آنا ہوا ہے‘ لیکن لگتا ہے کہ اس ایک سال میں پلوں کے نیچے سے اتنا پانی گزر گیا ہے کہ شمار ممکن نہیں رہا۔ ایک طرف مسلسل ترقی ہے اور دوسرے طرف مسلسل انحطاط ہے جو رُکنے کا نام نہیں لے رہا۔ دوسری بڑی تبدیلی جو دیکھنے میں آئی ہے وہ اس ملال کو مزید بڑھا رہی ہے اور وہ یہ کہ اب اِدھر محنت مزدوری کرنے والے‘ معقول ملازمت کرنے والے اور اچھا خاصا کاروبار کرنے والے‘ یعنی ہر مکتب ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے اب پاکستانی کے حالات میں کسی قسم کی بہتری سے مکمل مایوس دکھائی دیتے ہیں۔
میں کوئی سیاسی گفتگو نہیں کر رہا اور نہ ہی اس سارے معاملے میں کسی دوست یا ملنے والے کے سیاسی خیالات کے بارے میں کچھ کہہ رہا ہوں۔ میں تو ادھر حصولِ رزق کے لیے آئے ہوئے پاکستانیوں کی ملک ِعزیز کے بارے میں فکر مندی کی بات کر رہا ہوں جو اَب فکر مندی سے آگے نکل کر مایوسی میں بدل چکی ہے اور ادھر رہنے والوں کو کسی قسم کی امید کی کرن نہ تو دکھائی دے رہی ہے اور نہ ہی وہ اب کسی قسم کی بہتری کے بارے میں پُرامید ہیں۔ امارات‘ بلکہ سارے جزیرہ ہائے عرب میں ملازمت‘ کاروبار اور تجارت کرنے والے یورپ‘ امریکہ‘ برطانیہ‘ کینیڈا یا آسٹریلیا وغیرہ میں رہنے والے پاکستانیوں سے اس لیے بہت مختلف ہیں کہ یہاں رہنے والے خواہ چار عشروں سے یہاں کاروبار‘ ملازمت یا تجارت کر رہے ہیں‘........
© Roznama Dunya


